یہ سوال اکثر لوگ پوچھتے ہیں کہ کیا واقعی انٹرنیٹ سے پیسے کمانا ممکن ہے؟ یا پھر یہ ایک فراڈ ہے؟اسسوال کا جواب اس بات منحصر ہے کہ آپ انٹرنیٹ سے پیسے کمانا کیسے چاہتے ہیں۔ اگر
تو آپ یہ چاہتے ہیںکہ بغیر محنت کے چند گھنٹوں میں آپ سینکڑوں ڈالر کما لیں گے تو یقینا ایسا ممکن نہیں ہے۔
انٹرنیٹ پر برائوزنگ کرتے ہوئے، فیس بک پر، ٹوئٹر پر، حتیٰ کہ اخبارات میں بھی آپ کو ایسے اشتہارات نظر آتے ہوں گے کہ گھر بیٹھے چند گھنٹے کام کریں اور ہزاروں روپے کمائیں۔ پاکستان کے خراب معاشی حالات میں ایسے اشتہارات انتہائی خوش کن محسوس ہوتے ہیں اور لوگ ان کے جھانسے میں بہت آسانی سے آجاتے ہیں۔
یہ مضمون ہم نے ایسے ہی تمام سوالات جو انٹرنیٹ سے کمائی کے حوالے سے آپ کے ذہن میں ہوسکتے ہیں، کے مدلل جوابات دینے کے لئے تحریر کیا ہے ۔
انٹرنیٹ سے کمائی ایک فراڈ ہے یاگر؟
انٹرنیٹ سے بغیر محنت پیسے کمانا ناممکن ہے۔
کوئی ویب سائٹ یا کوئی شخص آپ کو مفت میں پیسے نہیں دے گی۔ اگر کوئی یہ دعویٰ
کرتا ہے کہ کسی لنک پر دن میں فلاں تعداد میں کلک کرنے سے آپ اتنے پیسے کما لیں
گے یا فلاں ویب سائٹ کا لنک شیئر کرنے سے آپ کو پیسے ملیں گے، تو وہ آپ سے جھوٹ
بول رہا ہے۔ اس کام کا مقصد کسی ویب سائٹ یا پراڈکٹ کی مشہوری تو ہوسکتا ہے، لیکن
کمائی نہیں۔ ساتھ ہی اخبار میں نظر آنے والے ان انسٹی ٹیوٹس کے اشتہارات جن میں
گھر بیٹھے کمائی کے گر سکھانے کے کورس کرائے جاتے ہیں، دراصل فراڈ ہی ہیں۔ ان جعلی
اداروں میں آپ صرف کورس فیس کے نام پر صرف اپنا پیسہ ضائع کرتے ہیں، جب کہ حاصل
کچھ نہیں ہوتا۔ فائدہ صرف ان ادارے کے چلانے والوں کو ہوتا ہے جو با آسانی اچھی
خاصی رقم بٹور لیتے ہیں۔
ہمارے علم میں یہ بات آئی ہے کہ ان اداروں میں سب سے زیادہ فراڈ ’’گوگل ایڈ سینس‘‘ کے حوالے سے کیا جاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت گوگل ایڈ سینس لاکھوں لوگوں کی کمائی کا ذریعہ ہے۔ لیکن یہ وہ لوگ ہیں جو کوئی فراڈ نہیں کررہے اور نہ ہی کوئی غیر قانونی کام۔ بلکہ اپنی محنت اور کوشش سے ایڈ سینس سے پیسے کما رہے ہیں۔ لیکن ہمارے یہاں چلنے والے جعلی ادارے گوگل ایڈ سینس کو آسان کمائی کا ذریعہ بتا کر لوگوں کو بیوقوف بناتے ہیں۔ ان اداروں کا طریقہ کار کچھ یوں ہوتا ہے کہ یہ آپ کو پہلے پہل تو کنفرم ایڈ سینس اکائونٹ فروخت کرکے پیسے وصول کرتے ہیں۔ اگرچہ آپ خود رجسٹریشن کروا کر ایک کنفرم اکائونٹ حاصل کرسکتے ہیں۔ لیکن یہاں بھی لوگوں کی سستی آڑے آجاتی ہے اور وہ جلدی کے چکر میں انہی لوگوں سے کنفرم اکاؤنٹ خریدنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ پھر ویب سائٹ بنانے کا طریقہ سکھا کر اس کی فیس وصول کی جاتی ہے اور اگر کوئی یہ نہ سیکھنا چاہے، تو اسے ویب سائٹ بنا کر دینے کے پیسے لیئے جاتے ہیں۔ یہ ویب سائٹس اکثر فری ہوسٹنگ سروس دینے والی ویب سائٹس پر ہوسٹ کی جاتی ہیں۔ کچھ انسٹی ٹیوٹ ہوسٹنگ اور ڈومین بھی فروخت کرتے ہیں اور معصوم لوگوں سے مزید پیسے اینٹھتے ہیں۔ اس طرح صارف کو کافی پیسے خرچ کرنے کے بعد ایک ایڈ سینس اکائونٹ اور ویب سائٹ ملتی ہے جس پر لگے ایڈ سینس اشتہارات پر اسے دن رات کلک کرنا ہوتا ہے اور یار دوستوں سے بھی کلک کروانے پڑتے ہیں۔
نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ چند دنوں یا ہفتوں بعد گوگل کی جانب سے صارف کا گوگل ایڈ سینس اکائونٹ بلاک کردیا جاتا ہے کیونکہ خود اپنی ویب سائٹ پر لگے اشتہارات پر کلک کرنا یا کروانا نا قابل قبول ہے۔ اپنی ذات کو دھوکا دینا بہت آسان ہے لیکن گوگل کو نہیں۔ گوگل ایڈ سینس کی کامیابی کا راز ہی اس کا فراڈ پکڑنے کا نظام ہے جو بہت بڑی آسانی سے خود کیئے جانے والے کلک شناخت کرلیتا ہے۔ ایک با ربلاک کیا جانے والا اکائونٹ شاید ہی کبھی دوبار فعال کیا جاتا ہے۔ اس طرح صارف کے لئے گوگل ایڈ سینس شجر ممنوعہ بن جاتا ہے اور انٹرنیٹ سے کمائی کا یہ باب ہمیشہ کے لئے بند ہوجاتا ہے۔
ہمارے علم میں یہ بات آئی ہے کہ ان اداروں میں سب سے زیادہ فراڈ ’’گوگل ایڈ سینس‘‘ کے حوالے سے کیا جاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت گوگل ایڈ سینس لاکھوں لوگوں کی کمائی کا ذریعہ ہے۔ لیکن یہ وہ لوگ ہیں جو کوئی فراڈ نہیں کررہے اور نہ ہی کوئی غیر قانونی کام۔ بلکہ اپنی محنت اور کوشش سے ایڈ سینس سے پیسے کما رہے ہیں۔ لیکن ہمارے یہاں چلنے والے جعلی ادارے گوگل ایڈ سینس کو آسان کمائی کا ذریعہ بتا کر لوگوں کو بیوقوف بناتے ہیں۔ ان اداروں کا طریقہ کار کچھ یوں ہوتا ہے کہ یہ آپ کو پہلے پہل تو کنفرم ایڈ سینس اکائونٹ فروخت کرکے پیسے وصول کرتے ہیں۔ اگرچہ آپ خود رجسٹریشن کروا کر ایک کنفرم اکائونٹ حاصل کرسکتے ہیں۔ لیکن یہاں بھی لوگوں کی سستی آڑے آجاتی ہے اور وہ جلدی کے چکر میں انہی لوگوں سے کنفرم اکاؤنٹ خریدنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ پھر ویب سائٹ بنانے کا طریقہ سکھا کر اس کی فیس وصول کی جاتی ہے اور اگر کوئی یہ نہ سیکھنا چاہے، تو اسے ویب سائٹ بنا کر دینے کے پیسے لیئے جاتے ہیں۔ یہ ویب سائٹس اکثر فری ہوسٹنگ سروس دینے والی ویب سائٹس پر ہوسٹ کی جاتی ہیں۔ کچھ انسٹی ٹیوٹ ہوسٹنگ اور ڈومین بھی فروخت کرتے ہیں اور معصوم لوگوں سے مزید پیسے اینٹھتے ہیں۔ اس طرح صارف کو کافی پیسے خرچ کرنے کے بعد ایک ایڈ سینس اکائونٹ اور ویب سائٹ ملتی ہے جس پر لگے ایڈ سینس اشتہارات پر اسے دن رات کلک کرنا ہوتا ہے اور یار دوستوں سے بھی کلک کروانے پڑتے ہیں۔
نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ چند دنوں یا ہفتوں بعد گوگل کی جانب سے صارف کا گوگل ایڈ سینس اکائونٹ بلاک کردیا جاتا ہے کیونکہ خود اپنی ویب سائٹ پر لگے اشتہارات پر کلک کرنا یا کروانا نا قابل قبول ہے۔ اپنی ذات کو دھوکا دینا بہت آسان ہے لیکن گوگل کو نہیں۔ گوگل ایڈ سینس کی کامیابی کا راز ہی اس کا فراڈ پکڑنے کا نظام ہے جو بہت بڑی آسانی سے خود کیئے جانے والے کلک شناخت کرلیتا ہے۔ ایک با ربلاک کیا جانے والا اکائونٹ شاید ہی کبھی دوبار فعال کیا جاتا ہے۔ اس طرح صارف کے لئے گوگل ایڈ سینس شجر ممنوعہ بن جاتا ہے اور انٹرنیٹ سے کمائی کا یہ باب ہمیشہ کے لئے بند ہوجاتا ہے۔
انٹرنیٹ سے کمائی ممکن ہے
بالکل، انٹرنیٹ سے پیسے کمانا یا انٹرنیٹ پر
نوکری یا کاروبار کرنا ایک حقیقت ہے اور یہ نہ صرف آپ کے لئے ایک باعزت کمائی کا
ذریعہ بن سکتا ہے بلکہ عام نوکری یا کاروبار سے کئی گناہ زیادہ کماکر بھی دے سکتا
ہے۔انٹرنیٹ نے دنیا کو آپ کے کمپیوٹر میں سمیٹ دیا ہے جس کا فائدہ اٹھانا آپ کے
اپنے ذہن پر منحصر ہے۔ انٹرنیٹ سے کروڑوں لوگوں کا کاروبار وابستہ ہے اور وہ اس سے
براہ راست یا بالواسطہ کما رہے ہیں۔ لیکن یاد رہے کہ ہر کام کی طرح یہ بھی محنت
طلب ہے اور آپ کی بھرپور توجہ چاہتا ہے۔ ہم یہاں امکانات لکھ رہے ہیں جو آپ کو
انٹرنیٹ سے کمانے میں مدد کریں گے لیکن یہ فیصلہ آپ نے اپنی ذات کا سامنے رکھ کر
خود کرنا ہے کہ آپ کو کون سا کام کرنا چاہئے۔
ایڈ سینس سے پیسے کمائیں
آپ نے اکثر نوٹس کیا ہوگا کہ جب آپ کوئی لفظ
لکھ کر گوگل پر تلاش کرتے ہیں تو یہ اس لفظ سے متعلق اشتہارات بھی اسکرین کے دائیں
جانب اور نتائج سے اوپر دکھاتا ہے۔ یہ اشتہارات دکھانے کے لئے ان ویب سائٹ کے
مالکان، گوگل کے پروگرام AdWords کے ذریعے گوگل کو پیسے دیتے
ہیں۔ گوگل اپنی آمدنی کا ایک بڑا حصہ ان ویب سائٹ مالکان کے اشتہارات اپنے سرچ
رزلٹس کے صفحات پر دکھا کر کماتا ہے۔گوگل اس کمائی میں صرف اکیلا حصے دار نہیں۔
آپ بھی گوگل ایڈ سینس کے ذریعے یہ اشتہارات اپنی ویب سائٹ پر دکھا کر اپنا حصہ
وصول کرسکتے ہیں۔
گوگل نے یہ پروگرام 18جون 2003ء کو شروع کیا تھا اور گوگل ایڈسینس بلا شبہ انٹرنیٹ سے پیسے کمانے کا اس وقت سب سے زیادہ کارآمد طریقہ ہے۔ اگر ایڈ سینس کا صحیح طرح سے استعمال کیا جائے تو یہ آپ کی مستقل آمدنی کا ذریعہ بن سکتا ہے لیکن شرط ایمانداری کی ہے کیونکہ گوگل اس وقت تک تنگ نہیں کرتا جب تک اسے تنگ کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔
ایڈ سینس کے کام کرنے کا طریقہ بھی سادہ ہے۔ آپ کو ایک ویب سائٹ بنانی ہے اور اسے قابل قبول طریقوں جیسے سرچ انجن آپٹمائزیشن کے ذریعے زیادہ سے زیادہ صارفین تک پہنچانا ہے تاکہ وہ آپ کی ویب سائٹ کا دورہ کریں اور گوگل ایڈ سینس کے دکھائے ہوئے اشتہارات پر کلک کریں۔ ہم تمام مراحل یہاں مرحلہ وار تحریر کررہے ہیں۔
٭ … گوگل ایڈ سینس پر رجسٹریشن کروانے سے پہلے آپ کو اپنی ایک ویب سائٹ تیار کرنی ہے۔ یہ ویب سائٹ کسی بھی دلچسپ موضوع کے حوالے سے ہوسکتی ہے۔ ویب سائٹ کی زبان بھی بہت اہمیت رکھتی ہے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ انگلش یا یورپ میں بولی جانے والی زبانوں کے علاوہ زبانوں میں بنائی گئی ویب سائٹس گوگل ایڈ سینس سے کچھ خاص نہیں کما پاتیں۔ اس لئے ویب سائٹ کی زبان کا فیصلہ بھی سوچ سمجھ کر کریں۔ ویب سائٹ جاذب نظر اور کارآمد ہونی چاہئے تاکہ صارف اس ویب سائٹ پر زیادہ سے زیادہ آئیں۔ یاد رہے کہ کسی دوسری ویب سائٹ سے مواد چوری کرکے آپ گوگل کو دھوکہ نہیں دے سکتے۔ اس لئے ویب سائٹ پر موجود مواد اصل اور انوکھا ہونا چاہئے۔
اگر آپ کے لئے خود ویب سائٹ بنانا ممکن نہیں لیکن ایک اچھی ویب سائٹ کا خاکہ آپ کے ذہن میں ہے توآپ پاکستان میں موجود سینکڑوں ویب سائٹس بنانے والے چھوٹے بڑے سافٹ ویئر ہائوسز یا پھر کسی اچھے ڈیزائنر /ڈیویلپر سے ویب سائٹ بنوا سکتے ہیں۔ اس میں آپ کو یقینا پیسے خرچ کرنے ہوں گے لیکن یہ بھی تو سوچیں کہ شاید ہی کوئی ایسا کاروبار ہو جس میں ابتدائی سرمایہ کاری نہ کرنی پڑتی ہو۔
آج کل صرف ویب سائٹس ہی نہیں بلکہ بلاگز (Blogs) بھی گوگل ایڈ سینس کے لئے بڑی تعداد میں استعمال ہوتے ہیں۔ اگر آپ اچھا لکھ سکتے ہیں اور کسی خاص موضوع پر ویب سائٹ بنانے کے جھنجٹ سے بھی چھٹکارا چاہتے ہیں تو پھر بلاگ ہی بنا لیں۔ یہ بلاگ wordpress.com پر بھی ہوسکتا ہے یا پھر Blogger.com پر بھی۔ نیز، اپنی ہوسٹنگ خرید کر بھی ورڈ پریس وغیرہ انسٹال کرکے بلاگ بنایا جاسکتا ہے۔
(بلاگنگ کیا ہے اور مفت بلاگ کیسے بنائیں)
ویب سائٹ کی تکمیل کے بعد کچھ عرصہ اس کی تشہیر بھی ضروری ہے تاکہ وزیٹرز کی تعداد بڑھائی جاسکے۔ آپ یہ کام فیس بک یا ٹوئٹر کی مدد سے کر سکتے ہیں۔ جہاں موجود آپ کے دوست اور Followers ویب سائٹ کی ٹریفک بڑھانے میں بہت معاون ثابت ہوں گے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ ویب سائٹ بنانے کے کم از کم چھ ماہ تک آپ کو گوگل ایڈ سینس پر رجسٹریشن کے لئے درخواست جمع نہیں کروانی چاہیے۔ گوگل کا پاکستانی ویب ماسٹرز کی درخواست کو رد کردینا معمول کی بات ہے۔ اس لئے بہتر ہے کہ رد ہونے سے بچنے کے لئے ویب سائٹ کو پہلے اچھی طرح تیار کرلیں۔
٭…دوسرے مرحلے میں آپ نے گوگل ایڈ سینس پر رجسٹریشن کروانی ہے۔ رجسٹریشن کے دوران پوچھی گئی معلومات کی درست فراہمی ہی آپ کے مفاد میں ہے۔ رجسٹریشن پوری ہونے کے بعد آپ کا اکائونٹ فوراً فعال نہیں کردیا جاتا بلکہ آپ کی درخواست جانچ پڑتال کے لئے متعلقہ فرد یا پھر کمپیوٹر پروگرام کو بھیج دی جاتی ہے جو اس بات کا تجزیہ کرتا ہے کہ آیا آپ کی ویب سائٹ گوگل ایڈ سینس کے اشتہارات چلانے کے لائق ہے کہ نہیں۔ اگر آپ کی ویب سائٹ مکمل ہے اور ایڈ سینس کے قواعد کے مطابق ہے تو پھر آپ کی درخواست ضرور قبول کرلی جائے گی۔ اگر درخواست ناقابل قبول ہو تو بھی کوئی مسئلہ نہیں۔ آپ اپنی ویب سائٹ کو مزید بہتر بنائیں اور دوبارہ درخواست دے دیں۔
٭…درخواست کی قبولی کے بعد آپ ایڈ سینس کے اشتہارات کا کوڈ حاصل کرسکتے ہیں۔ اپنی مرضی و منشا اور ویب سائٹ کی ضرورت کے مطابق اشتہارات کا سائز منتخب کریں اور ویب سائٹ پر ایسی جگہ لگائیں جہاں یہ ویب سائٹ پر آنے والوں کی نظروں کے سامنے بھی رہیں اور ویب سائٹ کا حلیہ بھی خراب نہ کریں۔ عموماً اشتہارات دائیں طرف یا پھر ویب سائٹ کے بینر کے قریب لگائیں جاتے ہیں۔
٭… آپ کا کام یہیں ختم نہیں ہوجاتا۔ اب آپ کو اپنی ویب سائٹ اپ ڈیٹ رکھنی ہے تاکہ وزیٹرز کی تعداد کم نہ ہونے پائے۔ جتنا ٹریفک آپ کی ویب سائٹ پر آئے گا، آپ کی آمدنی میں اضافے کے امکانات بھی اسی تناسب سے زیادہ ہوں گے۔ اگر جیب اجازت دے تو گوگل ایڈ ورڈ کے ذریعے خود بھی اپنی ویب سائٹ کا اشتہار دینے میں کوئی مضائقہ نہیں۔
یہ بات یاد رکھیں کہ ویب سائٹ بنا کر اسے گوگل ایڈ سینس سے قابل قدر کمائی کا ذریعہ بننے میں ضرور وقت لگتا ہے۔ یہ چند ماہ بھی ہوسکتے ہیں اور چند سال بھی۔ تمام تر انحصار آپ کی اپنی محنت اور لگن پر ہے۔ چند دنوں میں پیسوں کا ڈھیر نہیں لگ سکتا۔ نیز، یہ امید رکھنا کہ ہزاروں ڈالر ماہانہ آمدن شروع ہوجائے گی، بھی غیر معقول ہے۔ ایسے ویب سائٹ مالکان ضرور موجود ہیں، جو حقیقتاً ہزاروں ڈالر ماہانہ ایڈ سینس سے کما لیتے ہیں لیکن ان کی ویب سائٹس پر ٹریفک بھی لاکھوں کی تعداد میں ہوتا ہے۔ اگر آپ گوگل ایڈ سینس سے اپنی ویب سائٹ کے روز مرہ اخراجات نکال کر چند سو ڈالر کما لیتے ہیں تو یہ بہترین ہے۔
٭… گوگل ایڈ سینس سے کمائے گئے پیسے $100یا اس سے زائد ہوجانے پر منگوائے جاسکتے ہیں۔ سو ڈالر سے کم پیسے گوگل نہیں بھیجتا۔
یہ تو ذکر تھا گوگل ایڈ سینس کا، اب ہم آپ کو انٹرنیٹ سے کمائی کو ایک اور طریقہ بتاتے ہیں اور یہ طریقہ ہے فری لانسنگ (Freelancing)۔
گوگل نے یہ پروگرام 18جون 2003ء کو شروع کیا تھا اور گوگل ایڈسینس بلا شبہ انٹرنیٹ سے پیسے کمانے کا اس وقت سب سے زیادہ کارآمد طریقہ ہے۔ اگر ایڈ سینس کا صحیح طرح سے استعمال کیا جائے تو یہ آپ کی مستقل آمدنی کا ذریعہ بن سکتا ہے لیکن شرط ایمانداری کی ہے کیونکہ گوگل اس وقت تک تنگ نہیں کرتا جب تک اسے تنگ کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔
ایڈ سینس کے کام کرنے کا طریقہ بھی سادہ ہے۔ آپ کو ایک ویب سائٹ بنانی ہے اور اسے قابل قبول طریقوں جیسے سرچ انجن آپٹمائزیشن کے ذریعے زیادہ سے زیادہ صارفین تک پہنچانا ہے تاکہ وہ آپ کی ویب سائٹ کا دورہ کریں اور گوگل ایڈ سینس کے دکھائے ہوئے اشتہارات پر کلک کریں۔ ہم تمام مراحل یہاں مرحلہ وار تحریر کررہے ہیں۔
٭ … گوگل ایڈ سینس پر رجسٹریشن کروانے سے پہلے آپ کو اپنی ایک ویب سائٹ تیار کرنی ہے۔ یہ ویب سائٹ کسی بھی دلچسپ موضوع کے حوالے سے ہوسکتی ہے۔ ویب سائٹ کی زبان بھی بہت اہمیت رکھتی ہے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ انگلش یا یورپ میں بولی جانے والی زبانوں کے علاوہ زبانوں میں بنائی گئی ویب سائٹس گوگل ایڈ سینس سے کچھ خاص نہیں کما پاتیں۔ اس لئے ویب سائٹ کی زبان کا فیصلہ بھی سوچ سمجھ کر کریں۔ ویب سائٹ جاذب نظر اور کارآمد ہونی چاہئے تاکہ صارف اس ویب سائٹ پر زیادہ سے زیادہ آئیں۔ یاد رہے کہ کسی دوسری ویب سائٹ سے مواد چوری کرکے آپ گوگل کو دھوکہ نہیں دے سکتے۔ اس لئے ویب سائٹ پر موجود مواد اصل اور انوکھا ہونا چاہئے۔
اگر آپ کے لئے خود ویب سائٹ بنانا ممکن نہیں لیکن ایک اچھی ویب سائٹ کا خاکہ آپ کے ذہن میں ہے توآپ پاکستان میں موجود سینکڑوں ویب سائٹس بنانے والے چھوٹے بڑے سافٹ ویئر ہائوسز یا پھر کسی اچھے ڈیزائنر /ڈیویلپر سے ویب سائٹ بنوا سکتے ہیں۔ اس میں آپ کو یقینا پیسے خرچ کرنے ہوں گے لیکن یہ بھی تو سوچیں کہ شاید ہی کوئی ایسا کاروبار ہو جس میں ابتدائی سرمایہ کاری نہ کرنی پڑتی ہو۔
آج کل صرف ویب سائٹس ہی نہیں بلکہ بلاگز (Blogs) بھی گوگل ایڈ سینس کے لئے بڑی تعداد میں استعمال ہوتے ہیں۔ اگر آپ اچھا لکھ سکتے ہیں اور کسی خاص موضوع پر ویب سائٹ بنانے کے جھنجٹ سے بھی چھٹکارا چاہتے ہیں تو پھر بلاگ ہی بنا لیں۔ یہ بلاگ wordpress.com پر بھی ہوسکتا ہے یا پھر Blogger.com پر بھی۔ نیز، اپنی ہوسٹنگ خرید کر بھی ورڈ پریس وغیرہ انسٹال کرکے بلاگ بنایا جاسکتا ہے۔
(بلاگنگ کیا ہے اور مفت بلاگ کیسے بنائیں)
ویب سائٹ کی تکمیل کے بعد کچھ عرصہ اس کی تشہیر بھی ضروری ہے تاکہ وزیٹرز کی تعداد بڑھائی جاسکے۔ آپ یہ کام فیس بک یا ٹوئٹر کی مدد سے کر سکتے ہیں۔ جہاں موجود آپ کے دوست اور Followers ویب سائٹ کی ٹریفک بڑھانے میں بہت معاون ثابت ہوں گے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ ویب سائٹ بنانے کے کم از کم چھ ماہ تک آپ کو گوگل ایڈ سینس پر رجسٹریشن کے لئے درخواست جمع نہیں کروانی چاہیے۔ گوگل کا پاکستانی ویب ماسٹرز کی درخواست کو رد کردینا معمول کی بات ہے۔ اس لئے بہتر ہے کہ رد ہونے سے بچنے کے لئے ویب سائٹ کو پہلے اچھی طرح تیار کرلیں۔
٭…دوسرے مرحلے میں آپ نے گوگل ایڈ سینس پر رجسٹریشن کروانی ہے۔ رجسٹریشن کے دوران پوچھی گئی معلومات کی درست فراہمی ہی آپ کے مفاد میں ہے۔ رجسٹریشن پوری ہونے کے بعد آپ کا اکائونٹ فوراً فعال نہیں کردیا جاتا بلکہ آپ کی درخواست جانچ پڑتال کے لئے متعلقہ فرد یا پھر کمپیوٹر پروگرام کو بھیج دی جاتی ہے جو اس بات کا تجزیہ کرتا ہے کہ آیا آپ کی ویب سائٹ گوگل ایڈ سینس کے اشتہارات چلانے کے لائق ہے کہ نہیں۔ اگر آپ کی ویب سائٹ مکمل ہے اور ایڈ سینس کے قواعد کے مطابق ہے تو پھر آپ کی درخواست ضرور قبول کرلی جائے گی۔ اگر درخواست ناقابل قبول ہو تو بھی کوئی مسئلہ نہیں۔ آپ اپنی ویب سائٹ کو مزید بہتر بنائیں اور دوبارہ درخواست دے دیں۔
٭…درخواست کی قبولی کے بعد آپ ایڈ سینس کے اشتہارات کا کوڈ حاصل کرسکتے ہیں۔ اپنی مرضی و منشا اور ویب سائٹ کی ضرورت کے مطابق اشتہارات کا سائز منتخب کریں اور ویب سائٹ پر ایسی جگہ لگائیں جہاں یہ ویب سائٹ پر آنے والوں کی نظروں کے سامنے بھی رہیں اور ویب سائٹ کا حلیہ بھی خراب نہ کریں۔ عموماً اشتہارات دائیں طرف یا پھر ویب سائٹ کے بینر کے قریب لگائیں جاتے ہیں۔
٭… آپ کا کام یہیں ختم نہیں ہوجاتا۔ اب آپ کو اپنی ویب سائٹ اپ ڈیٹ رکھنی ہے تاکہ وزیٹرز کی تعداد کم نہ ہونے پائے۔ جتنا ٹریفک آپ کی ویب سائٹ پر آئے گا، آپ کی آمدنی میں اضافے کے امکانات بھی اسی تناسب سے زیادہ ہوں گے۔ اگر جیب اجازت دے تو گوگل ایڈ ورڈ کے ذریعے خود بھی اپنی ویب سائٹ کا اشتہار دینے میں کوئی مضائقہ نہیں۔
یہ بات یاد رکھیں کہ ویب سائٹ بنا کر اسے گوگل ایڈ سینس سے قابل قدر کمائی کا ذریعہ بننے میں ضرور وقت لگتا ہے۔ یہ چند ماہ بھی ہوسکتے ہیں اور چند سال بھی۔ تمام تر انحصار آپ کی اپنی محنت اور لگن پر ہے۔ چند دنوں میں پیسوں کا ڈھیر نہیں لگ سکتا۔ نیز، یہ امید رکھنا کہ ہزاروں ڈالر ماہانہ آمدن شروع ہوجائے گی، بھی غیر معقول ہے۔ ایسے ویب سائٹ مالکان ضرور موجود ہیں، جو حقیقتاً ہزاروں ڈالر ماہانہ ایڈ سینس سے کما لیتے ہیں لیکن ان کی ویب سائٹس پر ٹریفک بھی لاکھوں کی تعداد میں ہوتا ہے۔ اگر آپ گوگل ایڈ سینس سے اپنی ویب سائٹ کے روز مرہ اخراجات نکال کر چند سو ڈالر کما لیتے ہیں تو یہ بہترین ہے۔
٭… گوگل ایڈ سینس سے کمائے گئے پیسے $100یا اس سے زائد ہوجانے پر منگوائے جاسکتے ہیں۔ سو ڈالر سے کم پیسے گوگل نہیں بھیجتا۔
یہ تو ذکر تھا گوگل ایڈ سینس کا، اب ہم آپ کو انٹرنیٹ سے کمائی کو ایک اور طریقہ بتاتے ہیں اور یہ طریقہ ہے فری لانسنگ (Freelancing)۔
فری لانسنگ
اگر آپ ویب ڈیویلپر ہیں، کوئی پروگرامنگ
لینگویج جانتے ہیں، کسی اہم سافٹ ویئر پر مکمل عبور رکھتے ہیں، انگلش اچھی بول
سکتے ہیں، ٹائپنگ بہت تیزی سے کرسکتے ہیں، ٹربل شوٹنگ کرسکتے ہیں، اکاوئنٹنگ اچھی
جانتے ہیں، مضامین یا پریس ریلیز لکھ سکتے ہیں الغرض کسی بھی کام میں مہارت رکھتے
ہیں تو آپ ’’ فری لانسنگ‘‘ کرسکتے ہیں۔
امریکی اور یورپی کمپنیاں یا فرد وہاں کے مقامی افراد کو کسی کام یا پروجیکٹ کے لئے نوکری پر رکھیں تو انہیں اس کی تنخواہ کے علاوہ کئی اخراجات برداشت کرنے ہوتے ہیں۔ کئی کمپنیاں تو ایسی بھی ہیں جن کے آفس برائے نام ہی ہوتے ہیں اور وہ کوئی فرد نوکری پر رکھنے کی متحمل نہیں ہوسکتیں۔ ایسے میں وہ کمپنیاں یا افراد سستے ممالک جیسے پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، چین اور فلپائن میں موجود آن لائن کام کرنے والے افراد کو وہ کام ’’آئوٹ سورس(Outsource)‘‘ کردیتے ہیں جو یہ کام دور بیٹھے ہی بہت احسن طریقے سے کر دیتے ہیں۔ اس طرح کام دینے والے کو بھی بچت ہوتی ہے اور کام کرنے والے کو بھی اپنے کام کا مقامی مارکیٹ کے مقابلے میں اچھا معاوضہ مل جاتا ہے۔
انٹرنیٹ اور کمپیوٹر میں ہونے والے ترقی اور تبدیلیوں نے آئوٹ سورسنگ کو ایک انڈسٹری کی شکل دے دی ہے اوراس وقت آئوٹ سورسنگ اور فری لانسنگ اربوں ڈالر کی انڈسٹری بن چکا ہے۔ بھارت اور فلپائن کی سافٹ ویئر انڈسٹری میں کمائے جانے والے زرمبادلہ کاایک بڑا حصہ آئوٹ سورس کئے گئے کاموں سے آتا ہے۔
آئی بی ایم ہو یا انٹل، ڈیل ہو یا جنرل الیکٹرک، سب ہی اپنے اخراجات کم کرنے کے لئے مستقل ملازم رکھنے کے بجائے آئوٹ سورسنگ کو ترجیح دیتے ہیں۔ آپ کو شاید یہ جان کر حیرت ہو کہ سینکڑوں مشہور امریکی اور یورپی کمپنیوں کے کسٹمر سپورٹ سینٹر یا کال سینٹر بھارت، فلپائن ، پاکستان یا بنگلہ دیش میں موجود ہیں جو فی کال چند ڈالر یا معاہدے کے مطابق معاوضہ وصول کرتے ہیں اور ان کمپنیوں کے لئے لاکھوں ڈالر سالانہ بچاتے ہیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستان میں کام کرنے والے بیشتر سافٹ ویئرہاؤس آئوٹ سورس کئے گئے کام ہی کرتے ہیں۔
آپ یقینا سوچ رہے ہوں گے کہ آپ کیسے سافٹ ویئر ہائوس یا کال سینٹر کھولیں گے۔ لیکن جناب فری لانسنگ کرنے کے لئے آپ کو صرف ایک کمپیوٹر، انٹرنیٹ اور صلاحیت کی ضرورت ہے۔ نیز، جیسا کہ ہم نے پہلے کہا، آپ تقریباً ہر کام انٹرنیٹ پر کرسکتے ہیں لیکن زیادہ تر آئوٹ سورس کئے گئے کام کمپیوٹر سے متعلق ہوتے ہیں۔ لہٰذا ان لوگوں کے لئے آن لائن کام تلاش کرنا نسبتاً زیادہ آسان ہے جو ویب ڈیویلپمنٹ ، گرافک ڈیزائننگ یا کمپیوٹر پروگرامنگ پر مہارت رکھتے ہیں۔
ہم یہاں چند ویب سائٹس کا ذکر کریں گے جہاں آئوٹ سورس کئے گئے پروجیکٹ حاصل کئے جاسکتے ہیں۔
امریکی اور یورپی کمپنیاں یا فرد وہاں کے مقامی افراد کو کسی کام یا پروجیکٹ کے لئے نوکری پر رکھیں تو انہیں اس کی تنخواہ کے علاوہ کئی اخراجات برداشت کرنے ہوتے ہیں۔ کئی کمپنیاں تو ایسی بھی ہیں جن کے آفس برائے نام ہی ہوتے ہیں اور وہ کوئی فرد نوکری پر رکھنے کی متحمل نہیں ہوسکتیں۔ ایسے میں وہ کمپنیاں یا افراد سستے ممالک جیسے پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، چین اور فلپائن میں موجود آن لائن کام کرنے والے افراد کو وہ کام ’’آئوٹ سورس(Outsource)‘‘ کردیتے ہیں جو یہ کام دور بیٹھے ہی بہت احسن طریقے سے کر دیتے ہیں۔ اس طرح کام دینے والے کو بھی بچت ہوتی ہے اور کام کرنے والے کو بھی اپنے کام کا مقامی مارکیٹ کے مقابلے میں اچھا معاوضہ مل جاتا ہے۔
انٹرنیٹ اور کمپیوٹر میں ہونے والے ترقی اور تبدیلیوں نے آئوٹ سورسنگ کو ایک انڈسٹری کی شکل دے دی ہے اوراس وقت آئوٹ سورسنگ اور فری لانسنگ اربوں ڈالر کی انڈسٹری بن چکا ہے۔ بھارت اور فلپائن کی سافٹ ویئر انڈسٹری میں کمائے جانے والے زرمبادلہ کاایک بڑا حصہ آئوٹ سورس کئے گئے کاموں سے آتا ہے۔
آئی بی ایم ہو یا انٹل، ڈیل ہو یا جنرل الیکٹرک، سب ہی اپنے اخراجات کم کرنے کے لئے مستقل ملازم رکھنے کے بجائے آئوٹ سورسنگ کو ترجیح دیتے ہیں۔ آپ کو شاید یہ جان کر حیرت ہو کہ سینکڑوں مشہور امریکی اور یورپی کمپنیوں کے کسٹمر سپورٹ سینٹر یا کال سینٹر بھارت، فلپائن ، پاکستان یا بنگلہ دیش میں موجود ہیں جو فی کال چند ڈالر یا معاہدے کے مطابق معاوضہ وصول کرتے ہیں اور ان کمپنیوں کے لئے لاکھوں ڈالر سالانہ بچاتے ہیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستان میں کام کرنے والے بیشتر سافٹ ویئرہاؤس آئوٹ سورس کئے گئے کام ہی کرتے ہیں۔
آپ یقینا سوچ رہے ہوں گے کہ آپ کیسے سافٹ ویئر ہائوس یا کال سینٹر کھولیں گے۔ لیکن جناب فری لانسنگ کرنے کے لئے آپ کو صرف ایک کمپیوٹر، انٹرنیٹ اور صلاحیت کی ضرورت ہے۔ نیز، جیسا کہ ہم نے پہلے کہا، آپ تقریباً ہر کام انٹرنیٹ پر کرسکتے ہیں لیکن زیادہ تر آئوٹ سورس کئے گئے کام کمپیوٹر سے متعلق ہوتے ہیں۔ لہٰذا ان لوگوں کے لئے آن لائن کام تلاش کرنا نسبتاً زیادہ آسان ہے جو ویب ڈیویلپمنٹ ، گرافک ڈیزائننگ یا کمپیوٹر پروگرامنگ پر مہارت رکھتے ہیں۔
ہم یہاں چند ویب سائٹس کا ذکر کریں گے جہاں آئوٹ سورس کئے گئے پروجیکٹ حاصل کئے جاسکتے ہیں۔
وی ورکر۔ رینٹ اے کوڈر
http://www.vworker.com
(نوٹ: اس ویب کو اب فری لانسر نے خرید لیا ہے)
وی ورکر (vWorker) آئوٹ سورس پراجیکٹس کی سب سے پرانی اور مشہور مارکیٹ ویب سائٹ ہے۔ اس سے پہلے اس ویب سائٹ کا نام RentACoder تھا جسے پچھلے سال تبدیل کرکے وی ورکر( ورچوئل ورکر) کردیا گیا۔ اس ویب سائٹ پر رجسٹریشن مفت ہے جب کہ پروجیکٹ حاصل کرنے کے لئے Bidلگانے پر بھی کوئی فیس نہیں ہے۔ اس ویب سائٹ کے کام کرنے کا طریقہ کچھ یوں ہے کہ Employerیعنی وہ شخص جسے کچھ کام کروانا ہے، اپنے پروجیکٹ کی تفصیل وی ورکر پر جمع کرواتا ہے۔ آپ بطور ورچوئل ورکر اس پروجیکٹ پر بولی لگاتے ہیں کہ اتنے ڈالر میں آپ یہ کام کردیں گے۔ آپ کی لگائی ہوئی بولی صرف آپ اور پروجیکٹ کا مالک ہی دیکھ سکتے ہیں۔ اگر آپ کی لگائی ہوئی بولی مالک قبول کرلیتا ہے تو مالک بولی کی مالیت کے مطابق پیسے ویب سائٹ کے پاس جمع (Escrow) کروادیتا ہے۔ اب آپ پروجیکٹ کی تفصیل کے مطابق کام شروع کرتے ہیں اور اسے دی ہوئی ڈیڈ لائن کے اندر پورا کرتے ہیں۔ پروجیکٹ پورا ہونے کے بعد مالک اسے چیک کرتا ہے اور سب کام درست ہونے کی صورت میں آپ کے جمع کروائے ہوئے کام کو قبول کرلیتا ہے۔ کام کے قبول ہونے کے بعد وی ورکر آپ کے اکائونٹ میں پیسے جمع کردیتاہے جسے بعد میںمختلف طریقوں جیسے ویسٹرن یونین وغیرہ سے منگوا سکتے ہیں۔ شروع شروع میں آپ کو یہاں پروجیکٹ حاصل کرنے میں کافی تگ و دو کرنی پڑے گی کیوں کہ پہلے ہی لاکھوں لوگ یہاں کام کررہے ہیں۔ ان لاکھوں لوگوں میں سے آپ کی بولی کیوں منتخب کی جائے، یہ آپ نے خود ثابت کرنا ہے۔
یہاں آپ کو ہر طرح کے کام جیسے ٹائپنگ، لوگو ڈیزائننگ، پروگرامنگ، ویب سائٹ ڈیویلپمنٹ، ٹربل شوٹنگ مل جائیں گے۔ بہتر ہوگا کہ آپ ایک یا دو مخصوص طرز کے کاموں کی طرف اپنی توجہ مرکوز رکھیں اور انہی پروجیکٹس پر بولی لگائیں جنہیں آپ کو بخوبی انجام دے سکتے ہیں۔ ایسے پروجیکٹس جنھیں آپ پورا نہ کر پائیں نہ صرف یہ کہ آپ کی ریٹنگ برباد کرتے ہیں بلکہ بہت زیادہ خراب ریٹنگ کی صورت میں آپ کا اکائونٹ بھی ختم کردیا جاتا ہے جسے دوبارہ بنانا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ اس لئے زیادہ آمدنی کی کوشش میں آپ کہیں اپنے اکائونٹ سے بھی ہاتھ نہ دھوبیٹھیں۔
اس ویب سائٹ کے حوالے سے بہت سی دوسری تفصیلات طوالت سے بچنے کے لئے ہم یہاں بیان نہیں کررہے۔ اس لئے اس ویب سائٹ پر موجود مختلف رہنماء مضامین پڑھیں اور سمجھ کر عمل کریں۔ شروع میں آپ کو کافی مشکلات درپیش آئیں گی مگر آپ کی ہمت اور لگن آپ کو یہاں ایک کامیاب اور منافع بخش کاروبار کا مالک بنا دے گی۔
(نوٹ: اس ویب کو اب فری لانسر نے خرید لیا ہے)
وی ورکر (vWorker) آئوٹ سورس پراجیکٹس کی سب سے پرانی اور مشہور مارکیٹ ویب سائٹ ہے۔ اس سے پہلے اس ویب سائٹ کا نام RentACoder تھا جسے پچھلے سال تبدیل کرکے وی ورکر( ورچوئل ورکر) کردیا گیا۔ اس ویب سائٹ پر رجسٹریشن مفت ہے جب کہ پروجیکٹ حاصل کرنے کے لئے Bidلگانے پر بھی کوئی فیس نہیں ہے۔ اس ویب سائٹ کے کام کرنے کا طریقہ کچھ یوں ہے کہ Employerیعنی وہ شخص جسے کچھ کام کروانا ہے، اپنے پروجیکٹ کی تفصیل وی ورکر پر جمع کرواتا ہے۔ آپ بطور ورچوئل ورکر اس پروجیکٹ پر بولی لگاتے ہیں کہ اتنے ڈالر میں آپ یہ کام کردیں گے۔ آپ کی لگائی ہوئی بولی صرف آپ اور پروجیکٹ کا مالک ہی دیکھ سکتے ہیں۔ اگر آپ کی لگائی ہوئی بولی مالک قبول کرلیتا ہے تو مالک بولی کی مالیت کے مطابق پیسے ویب سائٹ کے پاس جمع (Escrow) کروادیتا ہے۔ اب آپ پروجیکٹ کی تفصیل کے مطابق کام شروع کرتے ہیں اور اسے دی ہوئی ڈیڈ لائن کے اندر پورا کرتے ہیں۔ پروجیکٹ پورا ہونے کے بعد مالک اسے چیک کرتا ہے اور سب کام درست ہونے کی صورت میں آپ کے جمع کروائے ہوئے کام کو قبول کرلیتا ہے۔ کام کے قبول ہونے کے بعد وی ورکر آپ کے اکائونٹ میں پیسے جمع کردیتاہے جسے بعد میںمختلف طریقوں جیسے ویسٹرن یونین وغیرہ سے منگوا سکتے ہیں۔ شروع شروع میں آپ کو یہاں پروجیکٹ حاصل کرنے میں کافی تگ و دو کرنی پڑے گی کیوں کہ پہلے ہی لاکھوں لوگ یہاں کام کررہے ہیں۔ ان لاکھوں لوگوں میں سے آپ کی بولی کیوں منتخب کی جائے، یہ آپ نے خود ثابت کرنا ہے۔
یہاں آپ کو ہر طرح کے کام جیسے ٹائپنگ، لوگو ڈیزائننگ، پروگرامنگ، ویب سائٹ ڈیویلپمنٹ، ٹربل شوٹنگ مل جائیں گے۔ بہتر ہوگا کہ آپ ایک یا دو مخصوص طرز کے کاموں کی طرف اپنی توجہ مرکوز رکھیں اور انہی پروجیکٹس پر بولی لگائیں جنہیں آپ کو بخوبی انجام دے سکتے ہیں۔ ایسے پروجیکٹس جنھیں آپ پورا نہ کر پائیں نہ صرف یہ کہ آپ کی ریٹنگ برباد کرتے ہیں بلکہ بہت زیادہ خراب ریٹنگ کی صورت میں آپ کا اکائونٹ بھی ختم کردیا جاتا ہے جسے دوبارہ بنانا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ اس لئے زیادہ آمدنی کی کوشش میں آپ کہیں اپنے اکائونٹ سے بھی ہاتھ نہ دھوبیٹھیں۔
اس ویب سائٹ کے حوالے سے بہت سی دوسری تفصیلات طوالت سے بچنے کے لئے ہم یہاں بیان نہیں کررہے۔ اس لئے اس ویب سائٹ پر موجود مختلف رہنماء مضامین پڑھیں اور سمجھ کر عمل کریں۔ شروع میں آپ کو کافی مشکلات درپیش آئیں گی مگر آپ کی ہمت اور لگن آپ کو یہاں ایک کامیاب اور منافع بخش کاروبار کا مالک بنا دے گی۔
او ڈیسک
http://www.odesk.com
یہ ویب سائٹ 2003ء میں بنائی گئی تھی اور ہماری ذاتی تجربے کے مطابق یہ پاکستانی سافٹ ویئر ہائوسز کی پسندیدہ ترین ویب سائٹس میں سے ایک ہے۔ اکثر سافٹ ویئر ہاؤس آئوٹ سورس کئے گئے کام یہیں سے حاصل کرتے ہیں۔ Alexaکے مطابق پاکستان میں سب سے زیادہ دیکھی جانے والی ویب سائٹس میں اس کا شمار 60واں ہے۔
وی ورکر اگرچہ فری لانسسنگ کے معاملے میں بانی کا درجہ رکھتی ہے لیکن اس پر پروجیکٹس کی مالیت او ڈیسک کے مقابلے میں خاصی کم ہوتی ہے۔ ایک ہزار ڈالر سے زائد مالیت کے پروجیکٹس وی ورکر پر کم ہی دیکھنے کو ملتے ہیں، اس کے مقابلے میں یہ او ڈیسک پر بہت عام ہیں۔ ساتھ ہی او ڈیسک پر ملنے والی اکثر پروجیکٹس لمبے عرصے کیلئے ہوتے ہیں۔ اس لئے ایک بڑا پروجیکٹ اگلے کئی ماہ یا سال تک آپ کیلئے مستقل آمدنی کا ذریعہ ثابت ہوسکتا ہے۔ او ڈیسک کی کامیابی کا راز اس کو ماڈرن ٹیکنالوجی، ڈیزائن اور تکنیک کو مدنظر رکھتے ہوئے تعمیر کرنا ہے۔ ہر روز سینکڑوں نئے پروجیکٹس او ڈیسک پر پیش کئے جاتے ہیں جنہیں انجام دینے کے لئے وی ورکر کی طرح آپ اپنی بولی لگاتے ہیں۔ لیکن یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ آپ مفت اکائونٹ کی صورت میں ایک ہفتے میں صرف بیس ہی پروجیکٹس پر بولی لگا سکتے ہیں۔ مزید پروجیکٹس پر بولی لگانے کیلئے یا تو آپ اگلے ہفتے کا انتظار کرتے ہیں یا پھر آپ کو فیس ادا کرکے اپنا اکائونٹ اپ گریڈ کرنا ہوتا ہے۔
وی ورکر کی طرح او ڈیسک پر بھی پروجیکٹس دو طرح کے ہوتے ہیں۔ اول وہ پروجیکٹس جن کے لئے آپ کو پہلے سے طے شدہ رقم (جو آپ نے بولی کی صورت میں لگائی تھی) ادا کی جاتی ہے جبکہ دوسرے پروجیکٹس وہ ہوتے ہیں جن کے لئے آپ فی گھنٹہ کے حساب سے پیسے وصول کرتے ہیں۔ اس طرح آپ جتنا کام کرتے ہیں، اسی کے مطابق آپ کو پیسے ملتے ہیں۔
یہاں بھی وی ورکر کی طرح لاکھوں کی تعداد میں لوگ پروجیکٹس حاصل کرنے کے لئے ہر وقت موجود رہتے ہیں۔ اس لئے یہاں بھی اپنا کیریئر شروع کرنے کے لئے آپ کو کافی محنت کرنی ہوگی۔ شروع میں کوشش کریں کہ کم سے کم مالیت میں کام کرنے کی پیش کش کریں۔ اپنے Proposalمیں یہ باور کروائیں کہ کم قیمت ہونے کے باوجود آپ یہ کام بہترین اندازمیں کرسکتے ہیں۔ ایک بار جب آپ کی پروفائل اور ریٹنگ بہتر ہوجائے، پھر آپ اپنی مرضی کے مطابق پیسے وصول کریں۔ اچھی ریٹنگ اور پروفائل رکھنے والے افراد یا کمپنیاں او ڈیسک پر کام تلاش نہیں کرتیں، بلکہ کام کروانے والے خود انہیں ڈھونڈ کر کام کرنے کی درخواست کرتے ہیں۔
یہ ویب سائٹ 2003ء میں بنائی گئی تھی اور ہماری ذاتی تجربے کے مطابق یہ پاکستانی سافٹ ویئر ہائوسز کی پسندیدہ ترین ویب سائٹس میں سے ایک ہے۔ اکثر سافٹ ویئر ہاؤس آئوٹ سورس کئے گئے کام یہیں سے حاصل کرتے ہیں۔ Alexaکے مطابق پاکستان میں سب سے زیادہ دیکھی جانے والی ویب سائٹس میں اس کا شمار 60واں ہے۔
وی ورکر اگرچہ فری لانسسنگ کے معاملے میں بانی کا درجہ رکھتی ہے لیکن اس پر پروجیکٹس کی مالیت او ڈیسک کے مقابلے میں خاصی کم ہوتی ہے۔ ایک ہزار ڈالر سے زائد مالیت کے پروجیکٹس وی ورکر پر کم ہی دیکھنے کو ملتے ہیں، اس کے مقابلے میں یہ او ڈیسک پر بہت عام ہیں۔ ساتھ ہی او ڈیسک پر ملنے والی اکثر پروجیکٹس لمبے عرصے کیلئے ہوتے ہیں۔ اس لئے ایک بڑا پروجیکٹ اگلے کئی ماہ یا سال تک آپ کیلئے مستقل آمدنی کا ذریعہ ثابت ہوسکتا ہے۔ او ڈیسک کی کامیابی کا راز اس کو ماڈرن ٹیکنالوجی، ڈیزائن اور تکنیک کو مدنظر رکھتے ہوئے تعمیر کرنا ہے۔ ہر روز سینکڑوں نئے پروجیکٹس او ڈیسک پر پیش کئے جاتے ہیں جنہیں انجام دینے کے لئے وی ورکر کی طرح آپ اپنی بولی لگاتے ہیں۔ لیکن یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ آپ مفت اکائونٹ کی صورت میں ایک ہفتے میں صرف بیس ہی پروجیکٹس پر بولی لگا سکتے ہیں۔ مزید پروجیکٹس پر بولی لگانے کیلئے یا تو آپ اگلے ہفتے کا انتظار کرتے ہیں یا پھر آپ کو فیس ادا کرکے اپنا اکائونٹ اپ گریڈ کرنا ہوتا ہے۔
وی ورکر کی طرح او ڈیسک پر بھی پروجیکٹس دو طرح کے ہوتے ہیں۔ اول وہ پروجیکٹس جن کے لئے آپ کو پہلے سے طے شدہ رقم (جو آپ نے بولی کی صورت میں لگائی تھی) ادا کی جاتی ہے جبکہ دوسرے پروجیکٹس وہ ہوتے ہیں جن کے لئے آپ فی گھنٹہ کے حساب سے پیسے وصول کرتے ہیں۔ اس طرح آپ جتنا کام کرتے ہیں، اسی کے مطابق آپ کو پیسے ملتے ہیں۔
یہاں بھی وی ورکر کی طرح لاکھوں کی تعداد میں لوگ پروجیکٹس حاصل کرنے کے لئے ہر وقت موجود رہتے ہیں۔ اس لئے یہاں بھی اپنا کیریئر شروع کرنے کے لئے آپ کو کافی محنت کرنی ہوگی۔ شروع میں کوشش کریں کہ کم سے کم مالیت میں کام کرنے کی پیش کش کریں۔ اپنے Proposalمیں یہ باور کروائیں کہ کم قیمت ہونے کے باوجود آپ یہ کام بہترین اندازمیں کرسکتے ہیں۔ ایک بار جب آپ کی پروفائل اور ریٹنگ بہتر ہوجائے، پھر آپ اپنی مرضی کے مطابق پیسے وصول کریں۔ اچھی ریٹنگ اور پروفائل رکھنے والے افراد یا کمپنیاں او ڈیسک پر کام تلاش نہیں کرتیں، بلکہ کام کروانے والے خود انہیں ڈھونڈ کر کام کرنے کی درخواست کرتے ہیں۔
ای لانس
http://www.elance.com
ای لانس بھی او ڈیسک کی طرح مشہور و معروف ویب سائٹ ہے۔ پاکستان میں دیکھی جانے والی سب سے زیادہ ویب سائٹس میں اس کا شمار 118واں ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ پاکستانی فری لانسر کس قدر سنجیدگی کے ساتھ یہاں کام کرنے میں مصروف ہیں۔صرف پاکستانی ہی نہیں، بنگلہ دیشی، بھارتی اور چھوٹی معیشتوں کے حامل کئی ممالک کے فری لانسر آپ کو یہاں اپنا روزگار کماتے نظر آئیں گے۔ کام کے اعتبار سے یہ ویب سائٹ بھی دوسروں مختلف نہیں۔ اس ویب سائٹ پر بھی دیگر کی طرح آپ پروجیکٹس حاصل کرنے کے لئے اپنے پروپوزل جمع کرواتے ہیں اور بولیاں لگاتے ہیں۔ ای لانس بھی کافی پرانی ویب سائٹ ہے جس کے کام کرنے کا طریقہ کار بھی باقی ویب سائٹس جیسا ہی ہے۔ پروجیکٹس پر کام کروانے والے یہاں Clientsکہلاتے ہیں جبکہ کام کرنے والے Contractors۔ ای لانس پر زیادہ تر کام پروگرامنگ اور ڈیویلپمنٹ کے حوالے سے ملتا ہے۔ ایک سروے کے مطابق ای لانس پر کام کرنے والے 39فی صد کنٹریکٹرکی کمائی کا واحد ذریعہ ای لانس ہی ہے۔ یہ تمام باتیں ظاہر کرتی ہیں کہ فری لانسنگ کس قدر قابل اعتماد کام ہے اور کس قدر منافع بخش بھی۔
ای لانس پر رجسٹریشن مفت ہے تاہم کچھ پابندیوں کے ساتھ۔ مکمل سہولیات سے فائدہ اٹھانے کے لئے آپ کو ماہانہ فیس ادا کرنی ہوتی ہے۔ لیکن کام شروع کرنے کے لئے مفت اکائونٹ ہی کافی ہے۔
ای لانس بھی او ڈیسک کی طرح مشہور و معروف ویب سائٹ ہے۔ پاکستان میں دیکھی جانے والی سب سے زیادہ ویب سائٹس میں اس کا شمار 118واں ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ پاکستانی فری لانسر کس قدر سنجیدگی کے ساتھ یہاں کام کرنے میں مصروف ہیں۔صرف پاکستانی ہی نہیں، بنگلہ دیشی، بھارتی اور چھوٹی معیشتوں کے حامل کئی ممالک کے فری لانسر آپ کو یہاں اپنا روزگار کماتے نظر آئیں گے۔ کام کے اعتبار سے یہ ویب سائٹ بھی دوسروں مختلف نہیں۔ اس ویب سائٹ پر بھی دیگر کی طرح آپ پروجیکٹس حاصل کرنے کے لئے اپنے پروپوزل جمع کرواتے ہیں اور بولیاں لگاتے ہیں۔ ای لانس بھی کافی پرانی ویب سائٹ ہے جس کے کام کرنے کا طریقہ کار بھی باقی ویب سائٹس جیسا ہی ہے۔ پروجیکٹس پر کام کروانے والے یہاں Clientsکہلاتے ہیں جبکہ کام کرنے والے Contractors۔ ای لانس پر زیادہ تر کام پروگرامنگ اور ڈیویلپمنٹ کے حوالے سے ملتا ہے۔ ایک سروے کے مطابق ای لانس پر کام کرنے والے 39فی صد کنٹریکٹرکی کمائی کا واحد ذریعہ ای لانس ہی ہے۔ یہ تمام باتیں ظاہر کرتی ہیں کہ فری لانسنگ کس قدر قابل اعتماد کام ہے اور کس قدر منافع بخش بھی۔
ای لانس پر رجسٹریشن مفت ہے تاہم کچھ پابندیوں کے ساتھ۔ مکمل سہولیات سے فائدہ اٹھانے کے لئے آپ کو ماہانہ فیس ادا کرنی ہوتی ہے۔ لیکن کام شروع کرنے کے لئے مفت اکائونٹ ہی کافی ہے۔
گرو ڈاٹ کام
http://www.guru.com
یہ ویب سائٹ 1998ء سے آن لائن ہے تاہم پہلے اس کا نام eMoonlighter.com تھا۔ 1999ء میں اسے باقاعدہ Guruکا نام دیا گیا۔یہی وجہ ہے کہ اب تک اس ویب سائٹ پر کروڑوں ڈالرز کا کاروبار ہوچکا ہے۔ باقی فری لانسنگ ویب سائٹس کی طرح یہاں بھی پروجیکٹس کروانے والے لوگوں کی بھرمار ہے اور اسی طرح پروجیکٹ حاصل کرنے کے لئے ہزاروں پروگرامر، ڈیزائنر اور ڈیویلپر تیار بیٹھے ہیں۔ گرو کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ ویب سائٹ فری لانسنگ کی فیلڈ میں نئے آنے والوں کے لئے بہترین نہیں ہے۔ اس ویب سائٹ کا صحیح معنوں میں فائدہ اسی وقت اٹھایا جاسکتا ہے جب کہ آپ ایک باقاعدہ سافٹ ویئر ہائوس کی طرح کام کررہے ہیں اور کئی پروگرامر اور ڈیویلپر آپ کے پاس موجود ہوں۔ اس کی فیس بھی قدرے زیادہ ہی ہے۔ شروع میں ہم یہی کہیں گے کہ گرو کے بجائے دوسری ویب سائٹس پر توجہ دیں اور اسے اس وقت تک کے لئے چھوڑ دیں جب تک کہ آپ فری لانسنگ کی الف ب سے اچھی طرح واقف نہیں ہوجاتے۔
یہ ویب سائٹ 1998ء سے آن لائن ہے تاہم پہلے اس کا نام eMoonlighter.com تھا۔ 1999ء میں اسے باقاعدہ Guruکا نام دیا گیا۔یہی وجہ ہے کہ اب تک اس ویب سائٹ پر کروڑوں ڈالرز کا کاروبار ہوچکا ہے۔ باقی فری لانسنگ ویب سائٹس کی طرح یہاں بھی پروجیکٹس کروانے والے لوگوں کی بھرمار ہے اور اسی طرح پروجیکٹ حاصل کرنے کے لئے ہزاروں پروگرامر، ڈیزائنر اور ڈیویلپر تیار بیٹھے ہیں۔ گرو کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ ویب سائٹ فری لانسنگ کی فیلڈ میں نئے آنے والوں کے لئے بہترین نہیں ہے۔ اس ویب سائٹ کا صحیح معنوں میں فائدہ اسی وقت اٹھایا جاسکتا ہے جب کہ آپ ایک باقاعدہ سافٹ ویئر ہائوس کی طرح کام کررہے ہیں اور کئی پروگرامر اور ڈیویلپر آپ کے پاس موجود ہوں۔ اس کی فیس بھی قدرے زیادہ ہی ہے۔ شروع میں ہم یہی کہیں گے کہ گرو کے بجائے دوسری ویب سائٹس پر توجہ دیں اور اسے اس وقت تک کے لئے چھوڑ دیں جب تک کہ آپ فری لانسنگ کی الف ب سے اچھی طرح واقف نہیں ہوجاتے۔
فری لانسر
http://www.freelancer.com
یہ ویب سائٹ اگرچہ بہت پرانی نہیں ہے لیکن اس کے باوجود آج کل فری لانسرز کی پسندیدہ ویب سائٹس میں شمار ہوتی ہے۔ یہ دراصل کئی دوسری فری لانسسنگ ویب سائٹس کا مربع ہے۔ GetAFreelancer.com، EUFreelance.com، LimeExchange، Scriptlance وغیرہ چند ویب سائٹس ہیں جنہیں جمع کرکے فری لانسرڈاٹ کام بنائی گئی ہے۔ اسکرپٹ لانس سے ان کا معاہدہ حال ہی میں انجام پایا ہے۔ اس ویب سائٹ کے بارے شکایت کی جاتی ہے کہ یہ فری لانسرز کے اکائونٹ بلا وجہ بند کردیتی ہے اور انہیں اپنے پیسے بھی نکالنے کی اجازت نہیں دیتی۔ لیکن ویب سائٹ پر جس طرح فری لانسرز کام کررہے ہیںاور یہ ویب سائٹ ترقی کرہی ہے، وہ اس بات کی نفی کرتی ہے۔ یہاں کام کرنا نسبتاً آسان ہے جبکہ انٹرفیس بھی آسانی سے سمجھ میں آجانے والا ہے۔ رجسٹریشن کا عمل بھی مفت ہے۔
یہ ویب سائٹ اگرچہ بہت پرانی نہیں ہے لیکن اس کے باوجود آج کل فری لانسرز کی پسندیدہ ویب سائٹس میں شمار ہوتی ہے۔ یہ دراصل کئی دوسری فری لانسسنگ ویب سائٹس کا مربع ہے۔ GetAFreelancer.com، EUFreelance.com، LimeExchange، Scriptlance وغیرہ چند ویب سائٹس ہیں جنہیں جمع کرکے فری لانسرڈاٹ کام بنائی گئی ہے۔ اسکرپٹ لانس سے ان کا معاہدہ حال ہی میں انجام پایا ہے۔ اس ویب سائٹ کے بارے شکایت کی جاتی ہے کہ یہ فری لانسرز کے اکائونٹ بلا وجہ بند کردیتی ہے اور انہیں اپنے پیسے بھی نکالنے کی اجازت نہیں دیتی۔ لیکن ویب سائٹ پر جس طرح فری لانسرز کام کررہے ہیںاور یہ ویب سائٹ ترقی کرہی ہے، وہ اس بات کی نفی کرتی ہے۔ یہاں کام کرنا نسبتاً آسان ہے جبکہ انٹرفیس بھی آسانی سے سمجھ میں آجانے والا ہے۔ رجسٹریشن کا عمل بھی مفت ہے۔
اختتامیہ
تو قارئین آپ نے دیکھا کہ انٹرنیٹ سے پیسے کمانا بالکل ایک حقیقت
ہے۔ اصل بات درست راستے پر چلنے کی ہے۔ فراڈ یا دھوکہ دہی کہ ذریعے شاید کوئی چند
دن تو انٹرنیٹ پر پیسے بنا لے گا لیکن یہ عمل عارضی ہی ثابت ہوتاہے۔ اصل زندگی میں
جس طرح آپ کاروبار کرتے ہیں، انٹرنیٹ پر کاروبار کرنا اس سے کچھ خاص مختلف نہیں
ہے۔ آپ کی ایمانداری اور محنت آپ کو انٹرنیٹ پر اُس سے کہیں زیادہ کما کر دے
سکتی ہے جتنا آپ عام زندگی میں کما سکتے ہیں۔ نیز، بات صرف پیسے کمانے تک محدود
نہیں، غیر ملکیوں کے ساتھ کام کرنے سے آپ کو ایک نیا تجربہ حاصل ہوگا جو کہ اصل
زندگی میں آپ کے بے حد کام آئے گا۔
بولی کس طرح لگائی جائے؟
بولی (Bid)لگانے کے لئے وہی عام طریقہ کار ہے، آپ پروجیکٹ کو تلاش کرنے
کے بعد اس کو سمجھیں اور جب آپ کو لگے کہ آپ پروجیکٹ کے لئے موزوں ہیں تو اس پر
اپنی بولی لگائیں۔ اگر خریدار کو آپ
کی آفر پسند آگئی تو وہ آپ کو اپنے پروجیکٹ کے لئے چن لے گا۔ کسی بھی فری
لانسنگ ویب سائٹ پر بولی لگاتے وقت چند باتوں کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے۔
پروگرامنگ کا ایک اصول ہے کہ ’’ تفصیلات پر زیادہ سے زیادہ دھیان دیں‘‘۔ یہ اصول
بولی لگانے پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ اس لئے یہ بے حد ضروری ہے کہ آپ پروجیکٹ کی
تفصیل غور سے پڑھیں اور اس بات کا اطمینان کرلیں کہ آپ خریدار کے بتائے ہوئے کام
کو کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور آپ پروجیکٹ کو بروقت پایہ تکمیل تک پہنچا سکتے
ہیں۔ کسی پروجیکٹ پر بولی لگانے اور اس کے قبول کئے جانے کے بعد اگر آپ اس
پروجیکٹ کو نہ کر پائیں تو نتیجہ نہ صرف مالی نقصان بلکہ ریٹنگ میں کمی کی صورت
میں نکلتا ہے۔ بعض ویب سائٹس آپ کو یہ سہولت دیتی ہیں کہ بولی لگانے سے پہلے اگر
کام سے متعلق آپ کے ذہن میں کوئی سوال ہو تو خریدار سے پوچھ سکتے ہیں۔ اگر
پروجیکٹ کی تفصیل میں کوئی بات مبہم ہو تو کلائنٹ سے اس بارے میں ضرور سوال کریں
بصورت دیگر پروجیکٹ کی تکمیل کے دوران کلائنٹ کی اس بارے میں وضاحت سارے پروجیکٹ
کا ستیاناس کرسکتی ہے۔
اس بات کا بھی خیال رکھیں کہ آپ نے خریدار کے بجٹ کو مدنظر رکھا ہے۔ اس کے بجٹ سے زیادہ پیسوں کا مطالبہ آپ کی بولی کی اہمیت کم کر سکتا ہے یا پھر سب سے کم بولی آپ کے پروجیکٹ جیتنے کے امکانات میں اضافہ نہیں کرتی۔ اتنا ہی پیسے مانگیں جتنے جائز ہیں۔
بولی لگاتے ہوئے خریدار کی دی گئی تفصیلات کے مطابق بات کریں۔ یعنی جو وہ کام کروانا چاہتا ہے اس سے متعلق ایسا لکھیں کہ ُاسے لگے کہ آپ نے واقعی اس کی دی گئی تفصیلات کو بغور پڑھا ہے۔دی ہوئی تفصیل میں اگر کسی کمپنی یا ویب سائٹ کا ذکر ہے تو اس کا نام اپنی بولی میں دہرائیں تاکہ کلائنٹ کو یقین ہوجائے کہ آپ نے تفصیلات بغور پڑھی ہیں۔ نیز اگر آپ پہلے بھی کسی ایسے پروجیکٹ پر کام کرچکے ہیں تو اس کا حوالہ یا تفصیل ضرور دیں۔ یہ بات آپ کے پروجیکٹ جیتنے میں اہم کردار ادا کرے گی۔
بولی لگاتے ہوئے ہمیشہ ادب و آداب کا خیال رکھیں۔ ایسے الفاظ کا چنائو کریں جن کے معنی واضح ہوں۔نہ تو اتنی زیادہ تفصیلات لکھیں کہ خریدار کے لیے پڑھنا محال ہو جائے اور نہ اس قدر مختصر لکھیں کہ خریدار کو لگے کہ آپ کام کے لیے سنجیدہ نہیں ہیں۔
اگر خریدار آپ کا انٹرویو کرنا چاہے تو اسے بروقت جواب دینے کی کوشش کریں۔ اس سے لگے گا کہ آپ نہ صرف پروجیکٹ کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں بلکہ اسے بروقت پورا کرنے میں سنجیدہ بھی ہیں۔ خندہ پیشانی سے خریدار کے تمام سوالات کے جواب دے کر اسے مطمئن کرنے کی کوشش کریں۔
یاد رکھیں کہ پروجیکٹ کی تکمیل کے بعد خریدار آپ کی کارکردگی کی بنیاد پر ریٹنگ اور آپ کے متعلق اپنا تبصرہ کرے گا۔ اگر آپ نے پروجیکٹ کو خوش اسلوبی سے مکمل کیا ہو گا تو وہ متاثر ہو کر اچھا تبصرہ کرے گا جس سے آپ کی پروفائل بہتر ہو گی۔ اگلی دفعہ جب کوئی خریدار کام دینے سے پہلے آپ کی پروفائل دیکھے گا تو یقینا دوسرے خریداروں کے اچھے تبصرے اور ریٹنگز سے آپ کو کام ملنے کے مواقع بڑھ جاتے ہیں۔ جیسے جیسے پروجیکٹس مکمل کر کے آپ کی پروفائل بہتر ہوتی جائے گی آپ کو پروجیکٹس بھی زیادہ ملنا شروع ہو جائیں گے۔ حتیٰ کہ خریدار خود آپ کو تلاش کر کے کام کی آفر کریں گے۔
ہر ویب سائٹ پر پروجیکٹ حاصل کرنے کے لیے مددگار تحریریں بھی موجود ہوتی ہیں جن سے آپ مدد حاصل کر سکتے ہیں۔
اس بات کا بھی خیال رکھیں کہ آپ نے خریدار کے بجٹ کو مدنظر رکھا ہے۔ اس کے بجٹ سے زیادہ پیسوں کا مطالبہ آپ کی بولی کی اہمیت کم کر سکتا ہے یا پھر سب سے کم بولی آپ کے پروجیکٹ جیتنے کے امکانات میں اضافہ نہیں کرتی۔ اتنا ہی پیسے مانگیں جتنے جائز ہیں۔
بولی لگاتے ہوئے خریدار کی دی گئی تفصیلات کے مطابق بات کریں۔ یعنی جو وہ کام کروانا چاہتا ہے اس سے متعلق ایسا لکھیں کہ ُاسے لگے کہ آپ نے واقعی اس کی دی گئی تفصیلات کو بغور پڑھا ہے۔دی ہوئی تفصیل میں اگر کسی کمپنی یا ویب سائٹ کا ذکر ہے تو اس کا نام اپنی بولی میں دہرائیں تاکہ کلائنٹ کو یقین ہوجائے کہ آپ نے تفصیلات بغور پڑھی ہیں۔ نیز اگر آپ پہلے بھی کسی ایسے پروجیکٹ پر کام کرچکے ہیں تو اس کا حوالہ یا تفصیل ضرور دیں۔ یہ بات آپ کے پروجیکٹ جیتنے میں اہم کردار ادا کرے گی۔
بولی لگاتے ہوئے ہمیشہ ادب و آداب کا خیال رکھیں۔ ایسے الفاظ کا چنائو کریں جن کے معنی واضح ہوں۔نہ تو اتنی زیادہ تفصیلات لکھیں کہ خریدار کے لیے پڑھنا محال ہو جائے اور نہ اس قدر مختصر لکھیں کہ خریدار کو لگے کہ آپ کام کے لیے سنجیدہ نہیں ہیں۔
اگر خریدار آپ کا انٹرویو کرنا چاہے تو اسے بروقت جواب دینے کی کوشش کریں۔ اس سے لگے گا کہ آپ نہ صرف پروجیکٹ کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں بلکہ اسے بروقت پورا کرنے میں سنجیدہ بھی ہیں۔ خندہ پیشانی سے خریدار کے تمام سوالات کے جواب دے کر اسے مطمئن کرنے کی کوشش کریں۔
یاد رکھیں کہ پروجیکٹ کی تکمیل کے بعد خریدار آپ کی کارکردگی کی بنیاد پر ریٹنگ اور آپ کے متعلق اپنا تبصرہ کرے گا۔ اگر آپ نے پروجیکٹ کو خوش اسلوبی سے مکمل کیا ہو گا تو وہ متاثر ہو کر اچھا تبصرہ کرے گا جس سے آپ کی پروفائل بہتر ہو گی۔ اگلی دفعہ جب کوئی خریدار کام دینے سے پہلے آپ کی پروفائل دیکھے گا تو یقینا دوسرے خریداروں کے اچھے تبصرے اور ریٹنگز سے آپ کو کام ملنے کے مواقع بڑھ جاتے ہیں۔ جیسے جیسے پروجیکٹس مکمل کر کے آپ کی پروفائل بہتر ہوتی جائے گی آپ کو پروجیکٹس بھی زیادہ ملنا شروع ہو جائیں گے۔ حتیٰ کہ خریدار خود آپ کو تلاش کر کے کام کی آفر کریں گے۔
ہر ویب سائٹ پر پروجیکٹ حاصل کرنے کے لیے مددگار تحریریں بھی موجود ہوتی ہیں جن سے آپ مدد حاصل کر سکتے ہیں۔
انگریزی ضروری ہے مگر انگریز بننا نہیں
انٹرنیٹ بھی دیگر ٹیکنالوجیز کی طرح مغربی ممالک سے تعلق
رکھنے والے حضرات کی ایجاد ہے اور ہم پاکستانی بھی دوسری اقوام کی طرح، اس سے
استفادہ حاصل کرنے کے لئے اپنی انگریزی کو بہتر سے بہتر کرنے کی طرف توجہ دیتے ہیں۔
مگر اس دنیا میں کچھ غیرت مند اقوام انگریزی بولنے اور استعمال کرنے کو قومی سطح پر معیوب سمجھتے ہیں، جیسی فرانسیسی، جرمن، بعض عرب وغیرہ۔ ہماری قوم کے المیہ کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کالج کے بعد اگر تو آپ کسی انجینئرنگ یا میڈیکل یا کسی اور پروفیشنل ڈگری کروانے والی یونی ورسٹی میں چلے گئے تو بس یہ آپ کا اردو سے آخری واسطہ بھی ختم ہوجاتا ہے۔ اردو بس ایک بولی بن کر رہ جاتی ہے۔
انٹرنیٹ پر کام حاصل کرنے کے لئے ہماری انگریزی کم از کم درجہ میں اتنی اچھی ہونی چاہئے کہ ہم کام کے دوران ہونے والی بات چیت کر بھی سکیں اور سمجھ بھی سکیں۔ اس کے لئے آپ کو cnn.com یا bbc.com وغیرہ کی ویب سائٹ دن میں کم از کم ایک دفعہ اپنے، انگریزی الفاظ کے ذخیرہ کو مزید بڑھانے کے لئے ضرور ملاحظہ کرنی چاہئے۔ اس کے علاوہ اپنے پیشے سے متعلق لوگوں کے بلاگ بھی پڑھیں۔
انگریزی گرامر: میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں مروجہ انگریزی تعلیم کا طریقہ کار، ہمیں انگریزی زبان کی ابجد سے بالکل ناواقف رکھتا ہے۔ بذات خود میں نے پرائمری ہی سے انگریزی اسکول میں تعلیم حاصل کی، مگر یونیورسٹی میں پہنچنے کے باوجود میری اس زبان پر دسترس ناکافی تھی، حتیٰ کہ میں نے TOEFL کی تیاری کے سلسلے میں ایک کتاب کا مطالعہ کیا اور اس میں گرامر کو سمجھانے کا جو طریقہ بیان کیا گیا تھا اس سے مجھے کافی معاونت ملی۔
انگریزی الفاظ کا ذخیرہ: جیسا کہ بیان کیا جا چکا کہ آپ انگریزی ویب سائٹ کا مطالعہ باقاعدگی سے کرتے رہیں، اس کے ساتھ ساتھ ایسے فورمز بھی تلاش کریں جہاں پر آپ کو انگریزی گرامر سے متعلق سوالات کے جوابات مل سکیں۔ اس کے علاوہ آپ GRE کی تیاری سے متعلق کتاب Word Smart بھی دیکھ سکتے ہیں۔ اس میں انگریزی زبان کے ان الفاظ کا ذخیرہ ہے، جس کے ساتھ آپ نیویارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ جیسے اخبارات و رسائل باآسانی پڑھ اور سمجھ سکتے ہیں۔
مگر اس دنیا میں کچھ غیرت مند اقوام انگریزی بولنے اور استعمال کرنے کو قومی سطح پر معیوب سمجھتے ہیں، جیسی فرانسیسی، جرمن، بعض عرب وغیرہ۔ ہماری قوم کے المیہ کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کالج کے بعد اگر تو آپ کسی انجینئرنگ یا میڈیکل یا کسی اور پروفیشنل ڈگری کروانے والی یونی ورسٹی میں چلے گئے تو بس یہ آپ کا اردو سے آخری واسطہ بھی ختم ہوجاتا ہے۔ اردو بس ایک بولی بن کر رہ جاتی ہے۔
انٹرنیٹ پر کام حاصل کرنے کے لئے ہماری انگریزی کم از کم درجہ میں اتنی اچھی ہونی چاہئے کہ ہم کام کے دوران ہونے والی بات چیت کر بھی سکیں اور سمجھ بھی سکیں۔ اس کے لئے آپ کو cnn.com یا bbc.com وغیرہ کی ویب سائٹ دن میں کم از کم ایک دفعہ اپنے، انگریزی الفاظ کے ذخیرہ کو مزید بڑھانے کے لئے ضرور ملاحظہ کرنی چاہئے۔ اس کے علاوہ اپنے پیشے سے متعلق لوگوں کے بلاگ بھی پڑھیں۔
انگریزی گرامر: میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں مروجہ انگریزی تعلیم کا طریقہ کار، ہمیں انگریزی زبان کی ابجد سے بالکل ناواقف رکھتا ہے۔ بذات خود میں نے پرائمری ہی سے انگریزی اسکول میں تعلیم حاصل کی، مگر یونیورسٹی میں پہنچنے کے باوجود میری اس زبان پر دسترس ناکافی تھی، حتیٰ کہ میں نے TOEFL کی تیاری کے سلسلے میں ایک کتاب کا مطالعہ کیا اور اس میں گرامر کو سمجھانے کا جو طریقہ بیان کیا گیا تھا اس سے مجھے کافی معاونت ملی۔
انگریزی الفاظ کا ذخیرہ: جیسا کہ بیان کیا جا چکا کہ آپ انگریزی ویب سائٹ کا مطالعہ باقاعدگی سے کرتے رہیں، اس کے ساتھ ساتھ ایسے فورمز بھی تلاش کریں جہاں پر آپ کو انگریزی گرامر سے متعلق سوالات کے جوابات مل سکیں۔ اس کے علاوہ آپ GRE کی تیاری سے متعلق کتاب Word Smart بھی دیکھ سکتے ہیں۔ اس میں انگریزی زبان کے ان الفاظ کا ذخیرہ ہے، جس کے ساتھ آپ نیویارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ جیسے اخبارات و رسائل باآسانی پڑھ اور سمجھ سکتے ہیں۔
بات چیت کی صلاحیت
اپنا مدعا بیان کرنے کے لئے ضروری نہیں کہ ہمارے پاس الفاظ
کا وسیع ذخیرہ موجود ہو، بلکہ الفاظ تو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتے رہتے ہیں، ضرورت اس
امر کی ہوتی ہے کہ آپ جس سے بات کررہے ہوں، آپ کے الفاظ اس کے گردوپیش اور ماحول
سے مطابقت رکھتے ہوں۔ مثلاً اگر آپ سے کوئی امریکی کلائنٹ کام کے پورا کرنے کا
سوال کر رہا ہے، اور آپ کو یقین ہے کہ آپ وہ کام 3 دن میں کرلیں گے تو یہاں
زیادہ مناسب یہ جملہ ہوگا:
I believe I will complete the task in 3 days .
یہاں لفظ believe پر غور کریں۔ اور اگر آپ کا غالب گمان یہ ہے کہ آپ کو کام کرنے میں کم از کم 3 یا زیادہ دن لگ سکتے ہیں، مگر آپ غیر یقینی کا شکار ہوں، تو مبہم جواب دینے کے لئے آپ کہیں گے:
I guess I will complete the task within 3 days.
اب یہ بات جب آپ کا انگریز کلائنٹ سنے گا یا پڑھے گا تو آپ کے ان الفاظ کے ہیر پھیر سے وہ کام کے مکمل ہونے کے بارے میں آپ کی کیفیت کا اندازہ لگا لے گا۔ الفاظ کا موضوع استعمال نہ صرف آپ کے مدعا کو کم از کم الفاظ میں بیان کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے، بلکہ آپ جس سے ہم کلام ہیں اس کو بھی اس بات کا احساس دلاتا ہے کی آپ کی زبان اس کے لئے اجنبی نہیں اور آپ اس کی کہی یا لکھی ہوئی بات کو سمجھنے اور اپنی بات اسے سمجھانے کی صلا حیت رکھتے ہیں۔ بعض کلائنٹ تو پروجیکٹ کی تفصیل میں ہی یہ واضح لکھ دیتے ہیں کہ انہیں ایسا کام کرنے والا درکار ہے جو انگلش پر مہارت رکھتا ہو۔
I believe I will complete the task in 3 days .
یہاں لفظ believe پر غور کریں۔ اور اگر آپ کا غالب گمان یہ ہے کہ آپ کو کام کرنے میں کم از کم 3 یا زیادہ دن لگ سکتے ہیں، مگر آپ غیر یقینی کا شکار ہوں، تو مبہم جواب دینے کے لئے آپ کہیں گے:
I guess I will complete the task within 3 days.
اب یہ بات جب آپ کا انگریز کلائنٹ سنے گا یا پڑھے گا تو آپ کے ان الفاظ کے ہیر پھیر سے وہ کام کے مکمل ہونے کے بارے میں آپ کی کیفیت کا اندازہ لگا لے گا۔ الفاظ کا موضوع استعمال نہ صرف آپ کے مدعا کو کم از کم الفاظ میں بیان کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے، بلکہ آپ جس سے ہم کلام ہیں اس کو بھی اس بات کا احساس دلاتا ہے کی آپ کی زبان اس کے لئے اجنبی نہیں اور آپ اس کی کہی یا لکھی ہوئی بات کو سمجھنے اور اپنی بات اسے سمجھانے کی صلا حیت رکھتے ہیں۔ بعض کلائنٹ تو پروجیکٹ کی تفصیل میں ہی یہ واضح لکھ دیتے ہیں کہ انہیں ایسا کام کرنے والا درکار ہے جو انگلش پر مہارت رکھتا ہو۔
تکنیکی اصطلاحات
میں ایک دفعہ کراچی کی فشری گیا، وہاں میرے دوست کی لانچ
مچھلیاں پکڑ کر واپس آئی تو میرے دوست نے اپنے ملاح سے سوال کیا ’’کیسا رہا؟‘‘ اس
نے جواب دیا ’’لاڈا ہوگیا‘‘، میرے دوست نے استفسار پر بتایا کہ لاڈا کا مطلب آج
خاطر خواہ مچھلیاں نہیں ملی۔ اب یہ لفظ فشری میں بہت عام ہے، مگر باہر کی دنیا اس
سے ناواقف ہے۔
اسی طرح ہر پیشے، علاقے، ثقافت میں اپنے الفاظ رائج ہوتے ہیں، ضرورت اس امر کی ہوتی ہے کہ ہم اپنے پیشے میں رائج اصطلاحات سے واقف ہوں۔آپ اگر تکنیکی اصطلاحات سے واقفیت رکھتے ہیں تو اپنی بولی میں ان کا استعمال بھی کریں تاکہ کلائنٹ پر واضح ہوسکے کہ آپ اس کی لکھی تفصیلات کو سمجھ رہے ہیں۔
اسی طرح ہر پیشے، علاقے، ثقافت میں اپنے الفاظ رائج ہوتے ہیں، ضرورت اس امر کی ہوتی ہے کہ ہم اپنے پیشے میں رائج اصطلاحات سے واقف ہوں۔آپ اگر تکنیکی اصطلاحات سے واقفیت رکھتے ہیں تو اپنی بولی میں ان کا استعمال بھی کریں تاکہ کلائنٹ پر واضح ہوسکے کہ آپ اس کی لکھی تفصیلات کو سمجھ رہے ہیں۔
کس سے سیکھیں؟
بذاتِ خود میں نے، کسی سے انگریزی پیسے دے کر ٹیوشن کے طور
پر نہیں سیکھی- میرا خیال یہ ہے کہ ناواقف زبان سیکھنے کے لئے ماحول کی ضرورت ہوتی
ہے، جو کہ ہمیں گلی، محلوں میں کھلے انگریزی تعلیم کے اداروں سے کم از کم کوالٹی
کے ساتھ تو نہیں مل سکتی۔ اس لئے ایسے ادارے جہاں اپ غیر ملکیوں سے بات چیت
کرسکیں، آپ کی انگریزی بول چال میں بہتر بنانے میں بے حد مددگار ثابت ہوتے ہیں۔
ڈھیٹ بن جائیں
انگریزی آپ کی مادری زبان نہیں۔ اس پر عبور حاصل کرنے میں
نہ صرف وقت درکار ہے بلکہ کڑی محنت بھی۔ اگر آپ کو انگریزی بولنے، لکھنے یا پڑھنے
میں کوئی شرم، جھجک یا رکاوٹ ہے، تو اس کو پس انداز کرکے اس کو بہتر کرنے میں اپنا
وقت صرف کریں۔ انشاء اللہ، آپ کو جلد اس پر دسترس ہوجائے گی۔
فری لانس کام حاصل کرنے کے لیے آپ کو ابتدا میں انتہائی صبر سے کام لینا پڑے گا۔ چونکہ آپ کی پروفائل پر کوئی ریٹنگ یا تجربہ نہیں ہو گا اس لیے خریدار آپ کو ترجیح نہیں دے گا۔ ظاہر ہے بعض اوقات خریدار کو اپنی کئی اہم معلومات آپ کو دینی پڑتی ہے تو وہ ویب سائٹ پر آنے والے کسی نئے بندے پر کیسے اعتبار کر لے؟ آغاز میں آپ کی bids کھوٹے سکے کی طرح واپس آنے لگیں گی لیکن اگر آپ مایوس ہونے بنا مزید نئے آنے والے پروجیکٹس پر بولی لگاتے رہے تو ایک دن ضرور کامیابی آپ کے قدم چومے گی۔
فری لانس کام حاصل کرنے کے لیے آپ کو ابتدا میں انتہائی صبر سے کام لینا پڑے گا۔ چونکہ آپ کی پروفائل پر کوئی ریٹنگ یا تجربہ نہیں ہو گا اس لیے خریدار آپ کو ترجیح نہیں دے گا۔ ظاہر ہے بعض اوقات خریدار کو اپنی کئی اہم معلومات آپ کو دینی پڑتی ہے تو وہ ویب سائٹ پر آنے والے کسی نئے بندے پر کیسے اعتبار کر لے؟ آغاز میں آپ کی bids کھوٹے سکے کی طرح واپس آنے لگیں گی لیکن اگر آپ مایوس ہونے بنا مزید نئے آنے والے پروجیکٹس پر بولی لگاتے رہے تو ایک دن ضرور کامیابی آپ کے قدم چومے گی۔
پیسے پاکستان منگوانے کے طریقے:
فری لانس کام مکمل کر لینے کے بعد آپ کے اکاؤنٹ میں رقم
جمع ہو جائے تو اگلا مرحلہ ہوتا ہے اسے حاصل کرنے کا۔ انٹرنیٹ پر کام ڈھونڈنا اتنا
مشکل نہیں جتنا بچت کے ساتھ پیسے پاکستان منگوانا دشوار ہے۔ اگر آپ فری لانس کام
کو باقاعدہ شروع کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو تقریباً رقوم کی ترسیل کے تمام ذرائع،
ان کی فیس اور پیسے منگوانے کے بچت والے طریقوں کی مکمل پڑتال کرنی ہوگی۔ تقریباً
تمام فری لانسنگ ویب سائٹس آپ کی کمائی ہوئی رقم چند دن تک اپنے پاس سکیوریٹی
وجوہات کی وجہ سے ضرور روک کے رکھتی ہیں۔ تاہم اس کے بعد جب آپ کی رقم آپ تک
پہنچنے کے لئے تیار ہوجائے تو پھر آپ اسے کئی طریقوں سے حاصل کرسکتے ہیں۔ ہم آپ
کو وہ تمام اہم طریقے اور ذرائع بتائیں گے جو کہ کسی بھی ویب سائٹ سے پیسے حاصل
کرنے کے لئے استعمال کئے جاسکتے ہیں۔
ویسٹرن یونین
ویسٹرن یونین چونکہ دنیا کے تمام ممالک میں کام کرتا ہے
اور اس کی شاخیں یا فرنچائز پاکستان بھر میں پھیلی ہوئی ہیں، اس لئے بظاہر یہ ایک
قابل اعتماد ذریعہ معلوم ہوتا ہے۔ مگر اکثر کلائنٹس اس کو نظر انداز کرتے ہیں،
کیونکہ اس طریقہ میں ان کا وقت اور پیسہ صرف ہوتا ہے۔ تاہم اگر دیگر کوئی ذریعہ
دستیاب نہ ہو تو پھر ویسٹرن یونین سے رقم منگوانے میں کوئی قباحت نہیں۔
عام طور پر اس طریقہ کار کے ذریعے آپ کو اوپن مارکیٹ کرنسی ایکسچینج ریٹ سے 2 یا 3 روپے کم کا ریٹ ملتا ہے۔ مگر فائدہ یہ ہے کے آپ کو رقم منٹوں میں وصول ہوجاتی ہے۔ آپ اگر چاہیں توجیسے ہی کسی نے آپ کو ویسٹرن یونین کے ذریعہ رقم بھیجی، آپ اس کو فوراً ٹریک کر سکتے ہیں۔ ویسٹرن یونین بڑی رقم جیسے ایک ہزار ڈالر زسے زائد کی رقم وصول کرنے کے لئے تو بہترین ہے مگر چھوٹی رقم کے ترسیل اس سے نہ کی جائے تو بہتر ہے۔ اس کی وجہ ویسٹرن یونین کی فیس ہے جو کہ چند سو ڈالر کے لئے پچاس ڈالر تک ہوسکتی ہے۔
ویسٹرن یونین ایک مفید سروس ہے، مگر آپ کو اپنی سہولت کے ساتھ ساتھ کلائنٹ کی آسانی کا خیال بھی رکھنا ہوگا۔ اور اسے طریقہ پر اتفاق کرنا ہوگا، جس سے آپ دونوں کو نقصان نہ ہو۔
ویسٹرین یونین سے بھیجے گئے پیسے وصول کرنے کے لئے اپنا اصل شناختی کارڈ اور اس کی کاپی لیجانا نہ بھولئے۔ رقم صرف وہی وصول کرسکتا ہے جس کے نام رقم ارسال کی گئی ہو۔ اگر بھیجنے والے نے وصول کرنے والے کا نام غلط درج کیا ہو تو رقم کی وصول میں شدید مشکل پیش آسکتی ہے۔
عام طور پر اس طریقہ کار کے ذریعے آپ کو اوپن مارکیٹ کرنسی ایکسچینج ریٹ سے 2 یا 3 روپے کم کا ریٹ ملتا ہے۔ مگر فائدہ یہ ہے کے آپ کو رقم منٹوں میں وصول ہوجاتی ہے۔ آپ اگر چاہیں توجیسے ہی کسی نے آپ کو ویسٹرن یونین کے ذریعہ رقم بھیجی، آپ اس کو فوراً ٹریک کر سکتے ہیں۔ ویسٹرن یونین بڑی رقم جیسے ایک ہزار ڈالر زسے زائد کی رقم وصول کرنے کے لئے تو بہترین ہے مگر چھوٹی رقم کے ترسیل اس سے نہ کی جائے تو بہتر ہے۔ اس کی وجہ ویسٹرن یونین کی فیس ہے جو کہ چند سو ڈالر کے لئے پچاس ڈالر تک ہوسکتی ہے۔
ویسٹرن یونین ایک مفید سروس ہے، مگر آپ کو اپنی سہولت کے ساتھ ساتھ کلائنٹ کی آسانی کا خیال بھی رکھنا ہوگا۔ اور اسے طریقہ پر اتفاق کرنا ہوگا، جس سے آپ دونوں کو نقصان نہ ہو۔
ویسٹرین یونین سے بھیجے گئے پیسے وصول کرنے کے لئے اپنا اصل شناختی کارڈ اور اس کی کاپی لیجانا نہ بھولئے۔ رقم صرف وہی وصول کرسکتا ہے جس کے نام رقم ارسال کی گئی ہو۔ اگر بھیجنے والے نے وصول کرنے والے کا نام غلط درج کیا ہو تو رقم کی وصول میں شدید مشکل پیش آسکتی ہے۔
وائر ٹرانسفر(Wire
Transfer)
اس طریقہ کار میں رقم براہ راست آپ کے بینک اکائونٹ میں
منتقل کردی جاتی ہے۔ آپ کو وائر ٹرانسفر کے لئے اپنے کلائنٹ یا فری لانسنگ ویب
سائٹس کو اپنے بینک اکائونٹ کا نمبر اور بینک کا
Swiftکوڈ مہیا کرنا ہوگا۔ ہر بینک کا Swiftکوڈ مختلف
ہوتا ہے اور یہ ضروری ہے کہ آپ درست
Swiftکوڈ فراہم کریں بصورت دیگر رقم آپ کے بینک اکائونٹ
تک نہیں پہنچ پائے گی۔ پاکستان میں موجود تمام بینک وائر ٹرانسفر کے لئے انٹرمیڈیٹ
بینک کا استعمال کرتے ہیں۔یہ انٹر میڈیٹ بینک آپ کے بینک اور رقم بھیجنے والے کے
بینک کے درمیان وسیلے کا کام کرتا ہے۔ اس کام کی یہ بینک فیس بھی وصول کرتا ہے جو
رقم کم ہونے کی صورت میں یا تو ہوتی ہی نہیں یاپھر بہت کم ہوتی ہے۔ تاہم بعض
صورتوں میں یہ فیس کافی زیادہ جیسے پچاس ڈالر یا اس سے بھی زیادہ ہوسکتی ہے۔
وائر ٹرانسفر میں دو سے پانچ دن تک لگ سکتے ہیں لیکن آپ کو رقم بینک کے مقرر کردہ فارن کرنسی ایکسچینج ریٹ جو کہ اوپن مارکیٹ ریٹ سے کم لیکن ویسٹرن یونین کے ایکسچینج ریٹ سے کافی زیادہ ہوتے ہیں، کے حساب سے رقم ملتی ہے۔
وائر ٹرانسفر میں دو سے پانچ دن تک لگ سکتے ہیں لیکن آپ کو رقم بینک کے مقرر کردہ فارن کرنسی ایکسچینج ریٹ جو کہ اوپن مارکیٹ ریٹ سے کم لیکن ویسٹرن یونین کے ایکسچینج ریٹ سے کافی زیادہ ہوتے ہیں، کے حساب سے رقم ملتی ہے۔
پے اونیئر ماسٹر ڈیبٹ کارڈ
یہ پاکستانیوں کیلئے اپنی انٹرنیٹ سے کمائی ہوئی رقم حاصل
کرنے کا ایک سہل طریقہ کار ہے۔ اس کے ذریعے آپ
Payoneer کارڈ پر رقم منگوا کر پاکستان میں موجود کسی
بھی اے ٹی ایم جو کہ ماسٹر کارڈ قبول کرتا ہو، سے رقم نکال سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ
پاکستان میں تمام بینکس کے اے ٹی ایم ماسٹر کارڈ قبول نہیں کرتے۔ تاہم اسٹینڈرڈ
چارٹرڈ، سٹی بینک اور ایم سی بی بینک کے اے ٹی ایم پر پے اونیئر کارڈ استعمال کیا
جاسکتا ہے۔
پے اونیئر ڈیبٹ کارڈ کے ذریعے رقم نکلوانے پر آپ کو مارکیٹ ریٹ سے ڈالر کا ریٹ چار سے پانچ روپے کم ملے گا۔ تاہم چونکہ پے اونیئر کی فیس بے حد کم ہے اس لئے اتنا فرق قابل قبول ہوتا ہے۔
پے اونیئر ڈیبٹ کارڈ کے ذریعے رقم نکلوانے پر آپ کو مارکیٹ ریٹ سے ڈالر کا ریٹ چار سے پانچ روپے کم ملے گا۔ تاہم چونکہ پے اونیئر کی فیس بے حد کم ہے اس لئے اتنا فرق قابل قبول ہوتا ہے۔
پے پال
یہ سہولت پاکستان میں میسر نہیں ہے، مگر اگر آپ کا کوئی
قابل اعتماد شخص امریکہ یا کینیڈا میں رہتا ہے تو آپ اس کے
Paypal کے اکائونٹ میں رقم ٹرانسفر کروا سکتے ہیں۔ مگر
یاد رکھیں، اگر آپ کسی یورپی ملک جیسے برطانیہ میں موجود شخص کا Paypal اکائونٹ
استعمال کرتے ہیں، تو آپ کو نقصان ہوگا۔ کیونکہ آپ کو رقم ڈالر سے پاکستانی روپے
کے بجائے، ڈالر سے پائونڈ یا یورو اور پھر پاکستانی روپے میں تبدیل ہوکر ملے گی
اور اس میں آپ کو نقصان ہوگا۔
کیا پے او نیئر، پے پال کا نعم البدل ہے؟
اگر آپ کے زیادہ تر کلائنٹس امریکہ سے تعلق رکھتے ہیں تو
یقینا آپ کو ان سے پیسے منگوانے میں، دشواری کا سامنا ہوتا ہوگا۔ خاص طور پر
امریکی Paypal کو
ترجیح دیتے ہیں، کیونکہ یہ زیادہ استعمال ہونے والا اور ان کے لئے سہل ہے۔ پے پال
کی اپنی خوبیاں ہیں۔ اس کا پے اونیئر سے مقابلہ تو نہیں کیا جاسکتا ہے مگر پاکستان
میں پے اونیئر کو پے پال کے نعم البدل کی صورت میں دیکھا جاتا ہے۔
ویسے تو آپ ویسٹرن یونین یا منی گرام بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ مگر اکثر امریکی چاہتے ہیں کہ رقم ادا کرنے جیسے کام کے لئے ان کو 30 یا 40 منٹ صرف نہ کرنے پڑیں۔ کیونکہ اگر وہ ویسٹرن یونین کو کال کریں یا اس کے کسی دفتر جائیں تو مختلف مراحل سے گزر کر، کریڈٹ کارڈ کے ذریعے رقم ادا کرنے میں ان کو تقریباً 30 منٹ صرف کرنے پڑتے ہیں۔اس لئے چھوٹی رقم جیسے چند سو ڈالر وغیرہ کے لئے کلائنٹ اتنی تکلیف برداشت کرنے پر مشکل سے ہی راضی ہوتا ہے۔ نیز ویسٹرن یونین کی زیادہ فیس کی وجہ سے بھی کلائنٹس اس کے استعمال سے اجتناب کرتے ہیں۔
پے او نیئر کارڈ کی خاص بات یہ ہے کہ آپ نا صرف اس پر فری لانس ویب سائٹ پر کمائی رقم منگوا سکتے ہیں بلکہ کسی کلائنٹ سے براہ راست رقم بھی حاصل کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس کارڈ کو آن لائن خریداری وغیرہ کے لیے بھی جہاں چاہیں استعمال کر سکتے ہیں۔نیز اسے POSپر بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ POSپر استعمال بالکل مفت ہے۔ لہٰذا اگر آپ کوئی چیز خریدنا چاہیں تو اے ٹی ایم سے پیسے نکالنے کے بجائے اپنے ڈیبٹ کارڈ سے ادائیگی کریں۔
فری لانس ویب سائٹس سے پیسے منگوانے کے مختلف طریقے ہیں۔ مثلاً وی ورکر (سابقہ نام رینٹ اے کوڈر) ویب سائٹ ایک مخصوص تاریخ کو ادائیگی کرتی ہے۔ یعنی اس مقررہ تاریخ کو آپ کے مقرر کردہ طریقے کے تحت آپ کو رقم ارسال کر دی جاتی ہے جبکہ اوڈیسک جیسی ویب سائٹس پر پیسے کلیئر ہوتے ہی آپ انھیں جب چاہیں اپنے کارڈ میں منتقل کر سکتے ہیں۔ اگر آپ پیسے اپنے پے او نیئر کارڈ میں منتقل کر رہے ہیں تو یہاں آپ کو دو آپشن ملیں گے۔ اگر آپ ریگولر لوڈ کریں گے تو اس کے لیے پے او نیئر آپ سے دو ڈالر تک کی رقم وصول کرے گا اور پیسے آپ کے کارڈ میں لوڈ ہونے میں تین سے پانچ دن لیں گے۔ جبکہ اگر آپ نے فوری لوڈ کا آپشن منتخب کیا تو پے اونیئر ایک یا دو ڈالر کی اضافی رقم سے فوراً ہی پیسے کارڈ میں منتقل کر دے گا اور آپ فوراً رقم اے ٹی ایم سے نکالنے کے قابل ہوں گے۔
ویسے تو آپ ویسٹرن یونین یا منی گرام بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ مگر اکثر امریکی چاہتے ہیں کہ رقم ادا کرنے جیسے کام کے لئے ان کو 30 یا 40 منٹ صرف نہ کرنے پڑیں۔ کیونکہ اگر وہ ویسٹرن یونین کو کال کریں یا اس کے کسی دفتر جائیں تو مختلف مراحل سے گزر کر، کریڈٹ کارڈ کے ذریعے رقم ادا کرنے میں ان کو تقریباً 30 منٹ صرف کرنے پڑتے ہیں۔اس لئے چھوٹی رقم جیسے چند سو ڈالر وغیرہ کے لئے کلائنٹ اتنی تکلیف برداشت کرنے پر مشکل سے ہی راضی ہوتا ہے۔ نیز ویسٹرن یونین کی زیادہ فیس کی وجہ سے بھی کلائنٹس اس کے استعمال سے اجتناب کرتے ہیں۔
پے او نیئر کارڈ کی خاص بات یہ ہے کہ آپ نا صرف اس پر فری لانس ویب سائٹ پر کمائی رقم منگوا سکتے ہیں بلکہ کسی کلائنٹ سے براہ راست رقم بھی حاصل کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس کارڈ کو آن لائن خریداری وغیرہ کے لیے بھی جہاں چاہیں استعمال کر سکتے ہیں۔نیز اسے POSپر بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ POSپر استعمال بالکل مفت ہے۔ لہٰذا اگر آپ کوئی چیز خریدنا چاہیں تو اے ٹی ایم سے پیسے نکالنے کے بجائے اپنے ڈیبٹ کارڈ سے ادائیگی کریں۔
فری لانس ویب سائٹس سے پیسے منگوانے کے مختلف طریقے ہیں۔ مثلاً وی ورکر (سابقہ نام رینٹ اے کوڈر) ویب سائٹ ایک مخصوص تاریخ کو ادائیگی کرتی ہے۔ یعنی اس مقررہ تاریخ کو آپ کے مقرر کردہ طریقے کے تحت آپ کو رقم ارسال کر دی جاتی ہے جبکہ اوڈیسک جیسی ویب سائٹس پر پیسے کلیئر ہوتے ہی آپ انھیں جب چاہیں اپنے کارڈ میں منتقل کر سکتے ہیں۔ اگر آپ پیسے اپنے پے او نیئر کارڈ میں منتقل کر رہے ہیں تو یہاں آپ کو دو آپشن ملیں گے۔ اگر آپ ریگولر لوڈ کریں گے تو اس کے لیے پے او نیئر آپ سے دو ڈالر تک کی رقم وصول کرے گا اور پیسے آپ کے کارڈ میں لوڈ ہونے میں تین سے پانچ دن لیں گے۔ جبکہ اگر آپ نے فوری لوڈ کا آپشن منتخب کیا تو پے اونیئر ایک یا دو ڈالر کی اضافی رقم سے فوراً ہی پیسے کارڈ میں منتقل کر دے گا اور آپ فوراً رقم اے ٹی ایم سے نکالنے کے قابل ہوں گے۔
پے او نیئر ڈیبٹ کارڈ کیسے حاصل کریں؟
Payoneer.com پے پال کے مقابلے میں ایک نئی سروس ہے۔ اس سروس سے استفادہ
حاصل کرنے کے لئے آپ کو مندرجہ ذیل کم از کم ایک فری لانسنگ ویب سائٹ پر رجسٹر
ہونا اور وہاں سے کم از کم ایک ٹرانزیکشن کرنا لازمی ہے۔ تاکہ آپ کسی بھی امریکی
کلائنٹ سے رقم اپنے Payoneer کارڈ میں منتقل کرواسکیں۔
www.Elance.com
www.FreeLancer.com
www.oDesk.com
www.Guru.com
www.iStockPhoto.com
www.Elance.com
www.FreeLancer.com
www.oDesk.com
www.Guru.com
www.iStockPhoto.com
بچت کے ساتھ استعمال:
Payoneer.com سے پاکستان پیسے منگوانے کے فی الحال دو طریقے ہیں:
1۔ پاکستان میں موجود ماسٹر کارڈ قبول کرنے والی اے ٹی ایم
اس طریقہ کار کے ذریعے آپ ایک وقت میں زیادہ سے زیادہ25ہزار یا بعض اے ٹی ایم (جیسے اسٹینڈرڈ چارٹرڈ) سے تیس ہزار روپے تک نکال سکتے ہیں۔ رقم ناکافی ہونے کی صورت میں تقریباً ایک ڈالر جرمانہ کیا جاتا ہے جبکہ ہر بار اے ٹی ایم سے پیسے نکالنے پر 2.25ڈالر فیس بھی چارج کی جاتی ہے۔ لہٰذا آپ کی کوشش ہونی چاہئے کہ ایک وقت میں زیادہ سے زیادہ جتنی رقم ممکن ہو، نکال لیں۔ کم رقم نکالنے اور زیادہ ٹرانزیکشنز کرنے میں آپ کا نقصان ہے۔ یاد رہے کہ اکائونٹ میں موجود رقم معلوم کرنے (بیلنس انکوائری) کی بھی فیس ہے جو تقریباً ایک ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ لیکن پھر بھی یہ ویسٹرن یونین وغیرہ کے مقابلے میں کہیں سستا ہے۔ اگر آپ باصلاحیت ہیں اور فری لانس کو اپنا روزگار بنانا چاہتے ہیں تو پے او نیئر ڈیبٹ کارڈ حاصل کرنا آپ کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔
2۔ skrill.com
skrill.com جو پہلے منی بکر کے نام سے جانی جاتی تھی، کے ذریعے آپ پے اونیئر ڈیبٹ کارڈ میں موجود رقم قدرے فائدے کے ساتھ نکلوا سکتے ہیں۔ آپ کو اسکرل پر اپنا اکائونٹ بناکر اسے ویری فائی کرانا ہوگا۔ جس کے بعد آپ اس میں پے اونیئر ڈیبٹ کارڈ رجسٹر کروالیں اور پے اونیئر کی رقم اسکرل اکائونٹ میں اپ لوڈ کروالیں۔ اس میں تقریباً کُل منتقل کی گئی رقم کا تین فیصد بطور فیس کاٹ لی جاتی ہے۔ بعد میں آپ اسکرل سے پیسے اپنے بینک اکائونٹ میں ٹرانسفر کروالیں۔ یاد رہے کہ آپ کو اپنا بینک بھی اسکرل اکائونٹ میں رجسٹر کروانا ہوتا ہے جس کے لئے آپ کو SWIFTکوڈ کی ضرورت پڑے گی۔اس سارے عمل میں اگرچہ وقت بہت زیادہ لگتا ہے مگر بچت بھی خوب ہوتی ہے۔ خاص طور پر تب جب آپ ایک بڑی رقم منتقل کررہے ہوں۔
1۔ پاکستان میں موجود ماسٹر کارڈ قبول کرنے والی اے ٹی ایم
اس طریقہ کار کے ذریعے آپ ایک وقت میں زیادہ سے زیادہ25ہزار یا بعض اے ٹی ایم (جیسے اسٹینڈرڈ چارٹرڈ) سے تیس ہزار روپے تک نکال سکتے ہیں۔ رقم ناکافی ہونے کی صورت میں تقریباً ایک ڈالر جرمانہ کیا جاتا ہے جبکہ ہر بار اے ٹی ایم سے پیسے نکالنے پر 2.25ڈالر فیس بھی چارج کی جاتی ہے۔ لہٰذا آپ کی کوشش ہونی چاہئے کہ ایک وقت میں زیادہ سے زیادہ جتنی رقم ممکن ہو، نکال لیں۔ کم رقم نکالنے اور زیادہ ٹرانزیکشنز کرنے میں آپ کا نقصان ہے۔ یاد رہے کہ اکائونٹ میں موجود رقم معلوم کرنے (بیلنس انکوائری) کی بھی فیس ہے جو تقریباً ایک ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ لیکن پھر بھی یہ ویسٹرن یونین وغیرہ کے مقابلے میں کہیں سستا ہے۔ اگر آپ باصلاحیت ہیں اور فری لانس کو اپنا روزگار بنانا چاہتے ہیں تو پے او نیئر ڈیبٹ کارڈ حاصل کرنا آپ کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔
2۔ skrill.com
skrill.com جو پہلے منی بکر کے نام سے جانی جاتی تھی، کے ذریعے آپ پے اونیئر ڈیبٹ کارڈ میں موجود رقم قدرے فائدے کے ساتھ نکلوا سکتے ہیں۔ آپ کو اسکرل پر اپنا اکائونٹ بناکر اسے ویری فائی کرانا ہوگا۔ جس کے بعد آپ اس میں پے اونیئر ڈیبٹ کارڈ رجسٹر کروالیں اور پے اونیئر کی رقم اسکرل اکائونٹ میں اپ لوڈ کروالیں۔ اس میں تقریباً کُل منتقل کی گئی رقم کا تین فیصد بطور فیس کاٹ لی جاتی ہے۔ بعد میں آپ اسکرل سے پیسے اپنے بینک اکائونٹ میں ٹرانسفر کروالیں۔ یاد رہے کہ آپ کو اپنا بینک بھی اسکرل اکائونٹ میں رجسٹر کروانا ہوتا ہے جس کے لئے آپ کو SWIFTکوڈ کی ضرورت پڑے گی۔اس سارے عمل میں اگرچہ وقت بہت زیادہ لگتا ہے مگر بچت بھی خوب ہوتی ہے۔ خاص طور پر تب جب آپ ایک بڑی رقم منتقل کررہے ہوں۔
ویسٹرن یونین یا منی گرام؟
ویسٹرن
یونین اور منی گرام تقریباً ایک جیسی سروسز ہیں۔ فرق صرف ان کی برانچوں کی تعداد
اور فیس کا ہے۔ کلائنٹ دونوں سروسز کی ویب سائٹس کو استعمال کرتے ہوئے گھر بیٹھ کر
بھی رقم ادا کرسکتا ہے۔
اگر رقم کی منتقلی کی فیس کلائنٹ ادا کرنے پر راضی ہو تو آپ اسے منی گرام کے استعمال کا مشورہ دیں۔ کیونکہ منی گرام کی فیس ویسٹرن یونین کے مقابلے میں قدرے کم ہے۔ تاہم آپ فیصلہ کلائنٹ پر بھی چھوڑ سکتے ہیں کہ وہ خود دونوں کی فیسوں کا جائزہ لے کر فیصلہ کرلے۔ منی گرام سے بھیجی گئی رقم آپ بینک الفلاح کی کسی بھی برانچ سے حاصل کرسکتے ہیں۔ ان کے ہاں رقم حاصل کرنے کا بڑا ہی اچھا انتظام موجود ہے۔
چاہے آپ Western Union سے رقم حاصل کرنے جا رہے ہوں یا MoneyGram سے، اپنا اصل شناختی کارڈ اور اس کی کاپی لے جانا نہ بھولئے۔ اس کے علاوہ آپ کو پیمنٹ کی تفصیلات کے حوالے سے جو ای میل موصول ہوئی ہے بہتر ہے کہ اس کا پرنٹ بھی ساتھ لے جائیں یا کم از کم MTCN یعنی منی ٹرانسفر کنٹرول کوڈ لے جانا مت بھولیں۔
اگر رقم کی منتقلی کی فیس کلائنٹ ادا کرنے پر راضی ہو تو آپ اسے منی گرام کے استعمال کا مشورہ دیں۔ کیونکہ منی گرام کی فیس ویسٹرن یونین کے مقابلے میں قدرے کم ہے۔ تاہم آپ فیصلہ کلائنٹ پر بھی چھوڑ سکتے ہیں کہ وہ خود دونوں کی فیسوں کا جائزہ لے کر فیصلہ کرلے۔ منی گرام سے بھیجی گئی رقم آپ بینک الفلاح کی کسی بھی برانچ سے حاصل کرسکتے ہیں۔ ان کے ہاں رقم حاصل کرنے کا بڑا ہی اچھا انتظام موجود ہے۔
چاہے آپ Western Union سے رقم حاصل کرنے جا رہے ہوں یا MoneyGram سے، اپنا اصل شناختی کارڈ اور اس کی کاپی لے جانا نہ بھولئے۔ اس کے علاوہ آپ کو پیمنٹ کی تفصیلات کے حوالے سے جو ای میل موصول ہوئی ہے بہتر ہے کہ اس کا پرنٹ بھی ساتھ لے جائیں یا کم از کم MTCN یعنی منی ٹرانسفر کنٹرول کوڈ لے جانا مت بھولیں۔
0 comments:
Post a Comment
kindly send us feed back